آزادی مارچ کا اگلا مرحلہ یعنی پلان بی شروع ہوگیا۔ پلان اے سے پلان بی کے اعلان تک ایک چیز جو نہیں بدلی وہ حکومت کی غیر سنجیدگی ہے۔ ایک طرف مذاکراتی ٹیم بنا کر گھر گھر گھوم رہے ہیں دوسری جانب حکومتی وزرا مولانا صاحب کے ہر اعلان پر ان کا تمسخر اڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حالات تصادم کی طرف بڑھ سکتے ہیں، حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ان حالات کا ادراک کرنے کے بجائے حکومتی وزرا اپنی حسِ مزاح کی تسکین کے لیے چٹکلے چھوڑ رہے ہیں۔
قومی شاہراہوں کی بندش سے حالات یقیناً تصادم کے طرف جائیں گے جس سے مولانا صاحب کا پرامن احتجاج کی کامیابی کا دعویٰ ہوا میں اڑ جائے گا۔ کیا مولانا اپنی سیاسی کامیابی کو سخت امتحان میں ڈالنے جا رہے ہیں؟
کیا مولانا فضل الرحمٰن کا پلان اے ناکام ہو گیا؟ اگر کوئی یہ سوچتا ہے تو اسے مولانا کی اب تک کی کامیابیوں کو دیکھنا ہو گا۔ مولانا نے آزادی مارچ اور دھرنے سے اپنا سیاسی اثرو رسوخ، اپنی سیاسی قوت اور اپنی جماعت کی مظبوطی کو منوا لیا۔ یہ وہ سیاسی کامیابیاں ہیں جو مولانا صاحب کی سیاسی ساکھ سے جڑے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مکمل رد کر چکی ہیں ۔عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنما یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست ہمیشہ کے لیے مر گئی ہے۔ مولانا کا سیاسی احیا نہ صرف پی ٹی آئی کے ان دعووں کی نفی کر رہا ہے بلکہ انہوں نے کچھ ایسے فوائد بھی حاصل کیے جن کا اثر پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیشہ رہے گا۔
جے یو آئی ایف کا اسلام آباد کے پشاور موڑ پر جاری دھرنا ابتدائی دنوں کی سیاسی گہما گہمی کے بعد ایک جمود کا شکار ہو گیا۔ یہ جمود کسی سیاسی طوفان کا پیش خیمہ تھا یا مولانا کے پلان اے کی ناکامی کا اعلان تھا۔ اس سوال کا جواب صرف مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے۔ ان کے حریف اور ان کے حلیف دونوں ہی کے پاس ایسا گر نہیں کہ ان کا چہرہ پڑھ سکیں۔ دارالحکومت میں ڈیل کی چہ میگوئیاں سر اٹھاتی اور دم توڑتی رہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مولانا صاحب کو واپسی کے لیے کوئی فیس سیونگ چاہیے۔ قومی شاہراہوں کو بند کرنے کا پلان مولانا کے لیے کیسے فیس سیونگ ہے؟
مولانا نے آغاز سے ہی مرحلہ وار تحریک کا اعلان کیا تھا۔ اب اگلے مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے بھی مولانا صاحب نے حکومت کو گھر بھیجنے یعنی عمران خان کے مستعفی ہونے کے بنیادی مطالبے سے پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
مولانا کے لہجے کے ٹھہراؤ سے کچھ اخذ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ان کے اعتماد کے پیچھے پوشیدہ اشارے تک پہنچنا ہے۔ یہ دھرنا جس حکومت کے پاؤں اکھاڑنے کا ارادہ باندھے بیٹھا تھا وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس دھرنے کے پلان ’بی‘ سے پریشان ہے یا نہیں یہ تو الگ معاملہ ہے مگر کیا وہ اس کے لیے تیار ہے؟
بعید النظر یہ کہنا بے جا نہیں کہ کپتان کی حکومت اس معاملے پر زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ اس کی ایک وجہ تو پی ٹی آئی کی توجہ کا ارتکاز ہے جو ہر طرح کے حالات میں سیاسی مخالفین کے خلاف جاری قانونی کشمکش میں جمی رہتی ہے۔ دوسری وجہ کپتان کے وہ قریبی ساتھی ہیں جو کنٹینر کے دنوں میں خان کے کانوں میں ’مولانا ڈیزل‘ جیسی اصطلاحات پھونکا کرتے تھے۔ آج بھی وہی ساتھی عمران خان اور حکومت کو مولانا کے دھرنے پر تشویش کا شکار ہونے سے منع کر رہے ہیں۔
پلان اے میں اسلام آباد کے ایک مخصوص احاطے میں جے یو آئی ایف کے کارکنوں نے پرامن رہ کر یہ ثابت کردیا کہ ان کے ارادوں میں نقص امن بہرحال شامل نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پلان بی کے باضابطہ اعلان کے ساتھ ایک بار پھر واضح الفاظ میں غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کے امکانات کو رد کیا۔ لیکن کیا ہمارے زمینی حقائق اس بات پر سو فیصد ایمان لانے کے لیے موافق ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس پر تحریک انصاف کو ذمہ داری سے سوچنا ہو گا۔ اس سارے معاملے پر اب تک حکومت کی طرف سے پلان نام کی کسی چیز کا اظہار نہیں ہوا۔ اگر پرامن احتجاج کو حکومت کمزوری سمجھتی ہے تو یہ بہت خطرناک علامت ہے۔ اگر مولانا صاحب کا پلان بی فیس سیونگ ہے تو اچھی بات ہے کیونکہ مولانا اپنی تقاریر اور دھرنے سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کافی مؤثر انداز میں کر چکے ہیں۔ خود تحریک انصاف نے ایسے ہی ایک دھرنے کی مدد سے نواز لیگ کی حکومت کے خلاف ایسا بیانیہ قائم کیا جس نے ان کے اقتدار میں آنے کی راہ کو ہموار کیا۔
اگر تحریک انصاف کے دھرنے کے اختتام کو دیکھا جائے تو وہ دھرنا بھی اپنے بنیادی مطالبات منوائے بغیر ختم ہوا تھا۔ سیاست میں لیے گئے ہر فیصلے یا اقدام کا ہمیشہ فوری نتیجہ نہیں آتا۔ مولانا صاحب بھی اگر اس پلان بی کی صورت میں کوئی فیس سیونگ لے رہے ہیں تو بھی ان کی سیاست پر اس کامیاب پر امن دھرنے کے دور رس اثرات ہوں گے۔ مولانا صاحب کی جماعت آئندہ اقتدار میں اہم شراکت دار نہ بھی بن سکے وہ اپنا آپ ایک اہم اور مرکزی حزب اختلاف کی جماعت کی حیثیت سے منوا چکے ہیں۔ آئندہ سیاسی فیصلوں میں مولانا صاحب کی جماعت کلیدی کردار ادا کرے گی۔
لیکن اگر مولانا صاحب حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بین السطور ان کے پوشیدہ مطالبات کی افواہیں درست ہیں تو پھر یقیناً حالات پیچیدگی اور مشکل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مولانا صاحب نے دھرنے کے شرکا اور میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بارہا یہ عندیہ دیا کہ یہ تحریک آگے ہی بڑھے گی اور اس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر دوسری صورت ہوئی تو حکومت اس سے نمٹنے کے لیے کیا کرے گی ابھی تک جہاں جہاں تحریک انصاف کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں حکومت اپنا اثرو رسوخ منوانے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔