پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہونے پر ایک طرف نئی روایات نے جنم لیا تو دوسری جانب ان کے بیرون ملک علاج کی غرض سے جانے کا معاملہ بھی متنازع ہوتا جا رہا ہے۔ عدالت سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے باوجود حکومت نے ان کے بیرون ملک جانے پر ساڑھے سات ارب روپے کے ضمانتی بانڈ جمع کرانے کی شرط عائد کی تو ن لیگ نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا۔
اس معاملہ پر یہ سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں بند عدالتوں سے سزا یافتہ دیگر بیمار قیدیوں کو بھی رہائی ملنی چاہیے کیونکہ ماہرین قانون کے مطابق انسانی بنیادوں پر عدالتوں کو کسی بھی قیدی کی ضمانت منظور کرنے کا اختیار ہے لیکن اس کے باوجود عام قیدی وسائل نہ ہونے کے باعث ضمانتوں کی درخواستیں دائر نہیں کر سکتے اور جیلوں میں ہی دم توڑ جاتے ہیں کیونکہ عدالت سے ضمانت کی صورت میں علاج اپنے خرچ پر کرانا ہوتا ہے۔
عدالتیں بھی بیمار قیدیوں سے متعلق تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر ہوئی جس میں پنجاب کی جیلوں میں 10000 سے زائد سزا یافتہ بیمار قیدیوں کی طبی بنیادوں پر ضمانتیں منظور کر کے رہائی کی اپیل کی گئی۔ عدالت نے یہ درخواست قانون کے مطابق کارروائی کے لیے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوا دی ہے۔
دوسری جانب معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ’ایک مرتبہ اجازت دیا جانا ای سی ایل سے نام ہٹایا جانا نہیں ہوتا اور وقت کے ساتھ ساتھ متعدد لوگوں کو اجازت دی جاچکی ہیں اور کمیٹی کو حج اور دیگر مواقع پر ایسی درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے ضمانتی بانڈ جمع کرانے کا مطالبہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ’کل عوام یا عدالتیں بھی ہم سے سوال کر سکتی تھیں کہ سزا یافتہ مجرم کو بغیر کسی یقین دہانی آپ نے کیسے باہر جانے دیا، جس کی وجہ سے قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے یقین دہانی ہم نے طلب کی ہے۔‘
سزا یافتہ قیدیوں کی ضمانت پر قانونی رائے
انجنیئر محمد الیاس نامی شہری نے رواں ہفتے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ پنجاب کی جیلوں میں دس ہزار سے زائد قیدی بیمار ہیں۔ جس طرح میاں نواز شریف کو بیماری کی بنیاد پر علاج کے لیے دو ماہ کی ضمانت دی گئی، ان قیدیوں کو بھی علاج کے لیے رہائی دی جائے۔
جسٹس رسال حسن سید نے سماعت کرتے ہوئے درخواست قانون کے مطابق عمل درآمد کے لیے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوا دی۔
انجینئر محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس ملک میں قانون سب کو ایک جیسے حقوق دیتا ہے اگر بڑے لوگوں کو قید کے دوران جان بچانے کے لیے علاج کی سہولت ہے تو عام قیدیوں کو بھی ایسی سہولت ملنی چاہیے کیونکہ جان تو سب کی قیمتی ہے۔
معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر سزا یافتہ کوئی بھی قیدی بیماری یا کسی اور بڑی وجہ کی بنیاد پر عدالتوں سے رجوع کرسکتا ہے اور عدالتیں سنجیدہ معاملہ ثابت ہونے پر متعلقہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پر ضمانت منظور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’جیل مینول کے مطابق بیمار قیدیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ سزا جرم کی ہوتی ہے لیکن انسانی ہمدردی کے تحت مجبور قیدی رعایت کا مستحق ہوتا ہے۔‘
حمزہ بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ویسے تو جیلوں میں قید ہر ایک سزا یافتہ کو طبی بنیادوں پر ضمانت دینے یا نہ دینے کا قانونی اختیار عدالتوں کو حاصل ہے لیکن عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ عام قیدیوں کی جیل میں ہی معمولی طبی سہولیات یا ہسپتال لے جا کر ان کا علاج کرا دیا جاتا ہے لیکن بہت کم ایسا دیکھا گیا کہ طبی بنیادوں پر کسی کو رہائی ملی ہو یا بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہو۔
کیا شورٹی بانڈ عدالتوں کے علاوہ لیے جاسکتے ہیں؟
قانون دان علی احمد کرد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے، عدالتوں سے سزا کے باوجود صحت جیسی بنیادی سہولیات ان کا حق ہے۔ انہیں ہر عام قیدی کی طرح نہیں سمجھا جاسکتا اور قانون بھی انہیں امتیازی حیثیت دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’دوسری بات یہ کہ انہوں نے عہدے پر ہوتے ہوئے یا عہدہ چھوڑنے کے باوجود عدالتوں یا جیل سے فرار کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ وہ خود باہر سے واپس آئے اور خود کو قانون کے حوالے کیا، تو کیا جو قیدی جیل میں بہترین کردار کا مظاہرہ کرے اسے قانون خصوصی رعایت نہیں دیتا؟‘
انہوں نے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ عدالت نے ضمانتی مچلکوں پر دو ماہ علاج کے لیے رہائی دی اور حکومت نے مزید سات ارب روپے کے ضمانتی بانڈ جمع کرانے کی شرط رکھ دی۔
عام تاثر کے برعکس کے حکومت نے نواز شریف سے سات ارب روپے جمع کروانے کے لیے کہا ہے ایسی بات نہیں ہے۔ درحقیقت ان سے ضمانت مانگی گئی ہے اور یہ ضمانت نواز شریف کی جگہ کوئی اور بھی دے سکتا ہے بشرطیکہ ان کے پاس سات ارب روپے موجود ہوں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہے کہ حکومت اپنے اس مطالبے سے کہیں یہ تو ثابت کرنا نہیں چاہتی کہ نواز شریف کے پاس اتنی بڑی رقم موجود ہے؟
علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ عدالت سے ضمانت کے باوجود کسی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے ضمانتی بانڈ مانگے۔ اس سے پہلے بھی حکومت کئی شخصیات کو عدالتوں سے ضمانت ملنے پر ای سی ایل سے نام نکال کر بیرون ملک جانے کی اجازت دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا: ’نواز شریف کے معاملہ میں سیاسی انتقام دکھائی دے رہا ہے۔‘
سینیئر صحافی نعیم مصطفیٰ نے اس حوالے سے کہا کہ میڈیکل بورڈ رپورٹ دے چکا ہے کہ ان کی حالت تشویش ناک ہے، عدالت نے ضمانت بھی منظور کر لی لیکن حکومت کی جانب سے ’انسانی بنیادوں پر غیر انسانی سلوک‘ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ جیلوں میں بند دیگر قیدیوں کی صحت پر بھی غیر انسانی سلوک دیکھا جا رہا ہے۔