خیبر پختونخوا حکومت نے گذشتہ ہفتے صوبے میں معدنیات کی ملکیت کے حوالے سے ایک بل پاس کیا ہے۔ اس بل کو معدنیات کے کاروبار سے وابستہ افراد اور اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت قبائلی عوام کو معاشی طور پر پیچھے دھکیلنا چاہتی ہے۔
حکومت نے مائنز اینڈ منرل گورننس ایکٹ 2017 میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں ایک شق کا اضافہ کیا ہے جس کے مطابق قبائلی اضلاع کی تمام معدنیات حکومت کی ملکیت ہوں گی اور انہیں زمین سے نکالنے کا ٹھیکہ حکومت دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایکٹ میں شامل کی گئی شق اے 2 میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبے کی تمام معدنیات مستقل طور پر حکومت کی ملکیت تصور کی جائیں گی اور ان سے فائدہ اٹھانے کا حق بھی اسی کا ہوگا۔
اس ترمیم پر عوامی نیشنل پارٹی نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ ’حکومت صوبے کے وسائل اپنوں کی جھولی میں ڈالنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ نئے اضلاع میں اس قسم کا قانون پختون دشمنی پر مبنی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ نئے قانون سے صوبے کے سرمایہ کاروں پر کاروبار کے دروازے بند ہو جائیں گے اور خیبر پختونخوا کے لوگوں پر معدنیات کی لیز لینے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ حکومت صرف اپنے لوگوں کو ٹھیکے دے گی۔
کیا یہ قانون نیا ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صوبائی حکومت نیا قانون لائی ہے لیکن جس شق کو مائینز اینڈ منرل گورننس ایکٹ کا حصہ بنایا گیا ہے وہ ویسٹ پاکستان ریونیو ایکٹ 1967 میں پہلے سے موجود ہے اور اس کے الفاظ بھی اسی جیسے ہیں۔
ویسٹ پاکستان ریونیو ایکٹ 1967 کی شق نمبر 49 میں درج ہے کہ ’جہاں بھی کانیں اور معدنیات ہوں گی وہ ہمیشہ حکومت کی ملکیت ہوں گی اور حکومت کو ان کے استعمال کا اختیار ہوگا۔‘
اس شق کے نیچے دوسری شق میں وضاحت دی گئی ہے کہ ایٹمی توانائی، تیل اور قدرتی گیس وفاقی حکومت کی ملکیت ہوگی جب کہ دوسری معدنیات ’ویسٹ پاکستان‘ کی ملیت ہوں گی۔ یہ ایکٹ چونکہ مشرقی پاکستان، جواب بنگلہ دیش ہے، کے الگ ہونے سے پہلے بنا ہے اس لیے اس میں ویسٹ پاکستان کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
قانون میں قبائلی اضلاع کے لیے خصوصی رعایت
حکومت کی جانب سے اس قانون میں معدنیات کی ملکیت کے حوالے سے نئی شق تو شامل کر دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی قبائلی اضلاع کو دس برس کے لیے خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔
مائنز اینڈ منرل گورننس ایکٹ کے شیڈول آٹھ میں لکھا ہے کہ حکومت ریونیو ایکٹ میں ترامیم کر کے قبائلی اضلاع میں جائیداد کی ملکیت کے حوالے سے تنازع حل کرے گی اور قبائلی اضلاع کی معدنیات کے ٹھیکوں میں مقامی لوگوں کو فوقیت دی جائے گی اور ٹھیکے دینے کے لیے مقامی رسم و رواج اپنائے جائیں گے۔
ایکٹ کے شیڈول چار کی شق نمبر پانچ میں لکھا ہے کہ معدنیات کے مقامی شئیر ہولڈرز کے شئیر کے لیے ایک جلسہ عام کیا جائے گا جو ٹھیکے دینے کے لیے کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے معدنیات میں ان کے شئیر کی نشاندہی کی جائے گی۔
اسی طرح شیڈول کی شق دس میں لکھا ہے کہ اس نئے قانون سے پہلے جتنے بھی ٹھیکے دیے گئے ہیں وہ برقرار رہیں گے اور ٹھیکوں کے حوالے سے کوئی بھی تنازع ایکٹ کے تحت بننے والی کمیٹی حل کرے گی۔
قبائلی اضلا ع میں معدنیات کے ٹھیکے کیسے دیے جاتے ہیں؟
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قیوم آفریدی کا کہنا ہے کہ دیگر قبائل کی طرح ان کے بھی اپنے علاقے میں ایسے پہاڑ ہیں جن سے معدنیات نکلتی ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی معدنیات کے ٹھیکے انہی کے قبیلے کے جلسے یا جرگے کے ذریعے ٹھیکہ داروں کے دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جتنا بھی منافع ان معدنیات سے حاصل ہوتا ہے وہ قبیلے کے ہر ایک خاندان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ نئے قانون میں مسئلہ کیا؟ یہ قانون تو پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہے کہ معدنیات حکومت کی ملکیت ہوں گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’حکومت نے قبائلی اضلاع کے عوام اور منتخب نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا ہے جس سے عوام میں بداعتمادی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ میں نے اس قانون کو پڑھا ہے اور اس میں قبائلی اضلاع کے حوالے سے خصوصی رعایت کے بارے میں بھی پڑھا ہے لیکن ایک عام شہری کو اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ یہ قانون ان کے فائدے کے لیے بنایا گیا ہے یا نقصان کے لیے؟
حکومت کا کیا موقف ہے؟
اس نئے قانون کو اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے پر گذشتہ روز صوبائی مشیر برائے ضم شدہ اضلاع اجمل خان وزیر نے پریس کانفرس میں بتایا کہ حکومت کسی بھی صورت قبائلی اضلاع کی کانیں سرکاری تحویل میں نہیں لے رہی اور نہ ہی آئندہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تمام کانیں حسب سابق قبائلی عوام اور اقوام کی ملکیت رہیں گی اور انہیں انضمام سے پہلے والے حقوق حاصل ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کانوں کی ملکیت سمیت لیز میں بھی مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی اور ٹیکس کے حوالے سے پرانے طریقہ کار کو ہرگز تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کو مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی کوئی تجویز یا بل پر کوئی اعتراض ہے تو پہلے وہ اس بل کو غور سے پڑھیں امید ہے ان کے خدشات دور ہو جائیں گے۔ یہ قانون قبائلی عوام کے بہتر مفاد میں بنایا گیا ہے کیونکہ وہاں پر معدنیات نکالنے کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اس بل کے منظوری کے بعد معدنیات کے شعبے میں سر گرمیوں میں تیزی آئے گی۔
کیا اس قانون میں پیچیدگیاں ہے؟
فضل خان پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور وہ اس نئے ایکٹ کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر چکے ہیں۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت اس ایکٹ کے شیڈول آٹھ میں قبائلی عوام کے لیے خصوصی مراعات کی جو بات کرتی ہے وہ اصل میں قانون کی غلط تشریح ہے اور قبائلی عوام کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک طرف حکومت نے ایکٹ میں نئی شق شامل کی ہے کہ معدنیات حکومت کی ملکیت ہوں گی جب کہ شیڈول آٹھ میں بھی اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ملکیت قبائلی عوام کی ہوگی لیکن حکومت اس پر بضد ہے کہ معدنیات کی ملکیت اب بھی مقامی قبائل کے پاس رہے گی۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ قانون تو کئی دہائیوں سے موجود ہے کہ ملک میں معدنیات کی ملکیت حکومت کی ہوگی تو اب جب قبائلی اضلاع کا انضمام ہوچکا تو ان پر یہ قانون لاگو نہیں ہوگا؟ تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’بندوبستی علاقوں میں اگر یہ قانون موجود ہے تو وہاں پر حکومت کی طرف سے عوام کو کچھ نہ کچھ سہولیات بھی تو دی گئی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس طرح کے قوانین کا دائرہ قبائلی اضلاع تک بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہاں لوگوں کو سہولتیں دی جائیں اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں۔ اس وقت قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں اور ہسپتال کی خاطر خواہ سہولیات موجود نہیں ہیں اور لوگوں کی روزی معدنیات سے جڑی ہوئی ہے۔