پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہمیشہ سننے کو ملتا ہے لیکن اس کا جواب اس وقت ملا جب گلگت بلتستان میں ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو بہتے پانیوں میں سے سونا نکالتے ہیں۔
بہتے دریا کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ان لوگوں کا روزگار ہی یہی ہے۔ یہ ایک محنت طلب کام تو ہے ہی لیکن یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کس جگہ سونا موجود ہے اور کہاں نہیں۔
سال بھر یہ قبیلہ موسم سرما کا انتظار کرتا ہے اور نومبر کا مہینہ آتے ہی ان سونا نکالنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ موسم سرما میں دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے تو ان کے لیے ریت چھان کر سونا نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہی لوگوں میں سے ایک محمد حسین ہیں۔ ان سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دن میں صرف تین، چار گھنٹے ہی یہ کام کرتے ہیں جس کے لیے وہ صبح سویرے اپنے خیموں سے نکل کر جاتے ہیں اور صبح نو، دس بجے واپس آجاتے ہیں۔
پانی میں سونا تو ہے لیکن اسے ڈھونڈ نکالنا ایک فن ہے۔ جگہ کا تعین کرنے کے بعد مختلف لیکن روایتی اوزاروں سے یہ سونا نکالا جاتا ہے۔
سارا کام مکمل کر لینے کے بعد یہ سونا ٹھیکیداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو اسے آگے مارکیٹوں میں لے جاتے ہیں۔
سونا نکالنے والے ان افراد کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ٹھیکیدار یہ سونا آگے کس قیمت پر فروخت کرتا ہے اور انھیں اگر یہ معلوم ہو بھی جائے کہ سونے کی قیمت زیادہ اور انھیں ملنے والی رقم کم ہے پھر بھی انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ یہ سونا ٹھیکیدار کو ہی بخوشی فروخت کرتے ہیں۔
لیکن اگر انھیں کوئی شکوہ ہے تو وہ یہ ہے کہ انھیں یہ سب کام پرانے اور روایتی طریقوں کسے کرنا پڑتا ہے جبکہ چین سے آنے والے اپنے ساتھ جدید مشینیں لاتے ہیں اور چند منٹوں میں بنا کسی محنت کے سونا نکال کر لے جاتے ہیں۔