’دھرنا دینا ہے یا احتجاج کرنا ہے یہ ان کا حق ہیں لیکن کسی شاہراہ کو بند کر کے عام شہری کو تکلیف دینا سمجھ سے بالاترہے۔ ملک کا مذاق بنا ہوا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے چکدرہ کے مقام پر اہم شاہراہ بند ہے جس پر روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے کسی قسم کے اقدامات نہیں ہو رہے ہیں کہ شاہراہ کو کھول دیا جائے۔‘
جمعیت علمائے اسلام ف کے ’پلان بی‘ کے تحت ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی اہم شاہراہوں پر دھر نے جاری ہیں اور صبح سے لے کر شام آٹھ بجے تک شاہراہوں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رکھا جاتا ہے لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے کہ ان شاہراہوں کو بند رکھنے پر عام شہریوں کی جانب سے مخالفت شروع ہو گئی ہے۔
گذشتہ روز چکدرہ کے مقام پر دھرنے میں فائرنگ کا ایک واقعہ ہوا۔
جے یو آئی ف دیر پائیں جندول کے سیکر ٹری اطلاعات گوہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کے کارکنان نے چکدرہ کے مقام پر ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی کیوں کہ ہم نے روڈ بند کیا ہوا تھا تو انھوں نے غصے میں آ کر ہوائی فائرنگ کی، تاہم فائرنگ سے کسی قسم کا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔‘
انھوں نے بتایا کہ کہ ’شاہراہیں صبح سے شام تک بند رہتی ہیں لیکن بیمار، خواتین ، بارات کے گاڑیوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘عوام کو تکلیف ضرور ہے لیکن اس حکومت سے جان چھڑانے کے لیے تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہراہوں کو بند کرنے کا جے یو آئی ف کے سربراہ بھی دفاع کرتے ہیں۔ گذشتہ روز جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں ایک انٹرویو کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ پوری دنیا کی جمہوری ریاستوں میں اس قسم کے احتجاج ہوتے رہتے ہیں اور وہ ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے شاہراہوں کی بندش کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’راستے سے ایک بڑا پتھر ہٹانے کے لیے کچھ نہ کچھ تکلیف تو برداشت کرنی پڑتی ہے تبھی اس کو ہٹایا جا سکتا ہے۔‘
پارٹی کارکنان نے چکدرہ کے پل کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کیا ہوا ہے اور یہ کارکنان وہاں پر کھڑے ہو کر جو بھی گاڑیاں آتی ہیں ان کو متبادل سڑک کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ دیر پائین سے پشاور یا اسلام آباد جانے والی گاڑیاں باڈوان روڈ کو استعمال کرتی ہیں جہاں پر گھنٹوں تک گاڑیاں بھیڑ میں پھنسی رہتی ہیں۔
دیر سے پشاور رینٹ پر کار چلانے والے ڈرائیور عنایت خان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ 15 سالوں سے ڈرائیونگ کے پیشے سے وابستہ ہیں اور چکدرہ والی سڑک ہی استعمال کرتے ہیں لیکن زندگی میں صرف دو بار اس راستے کو اتنے دنوں کے لیے بند ہوتے دیکھا جس کی وجہ سے وہ شدید عذاب میں مبتلا ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جب چکدرہ پل سیلاب کی وجہ سے گر گیا تھا تب، اور دوسرا اب اس دھرنے کی وجہ سے دیر سے پشاور تک تین گھنٹوں کا راستہ پانچ ،چھ گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔
دیر پائین سے تعلق رکھنے والے عباداللہ تین چار دن پہلے اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پشاور لے کر آئے۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ رات آٹھ بجے کے بعد ڈاکٹر سے فارغ ہو کر دیر کے لیے نکل گئے لیکن جب چکدرہ پہنچے تو رات کے 10 بج چکے تھے۔
وہاں پر موجود ایک لیوی اہلکار نے بتایا کہ روڈ بند ہے اور مظاہرین سو رہے ہیں اورکھولنے کا کوئی امکان نہیں، اس لیے متبادل روٹ استعمال کریں۔
انھوں نے بتایا کہ ’چکدرہ سے میرے گھر تک پہنچنے کے لیے تقریباً 30 منٹ لگتے ہیں لیکن متبادل روٹ استعمال کرتے ہوئے بیمار ماں کے ساتھ شدید اذیت کا شکار ہو گیا اور30 منٹ کا راستہ روٹ ڈھائی گھنٹے میں طے کرنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگائیں مولانا عوام کے ساتھ کتنی محبت کرتے ہیں اور عوام کو تکلیف دے کر وہ کتنا مطمئن نظر آتے ہیں۔‘
کہاں کہاں پر شاہراہیں بند ہیں؟
ملاکنڈ ڈویژن میں چکدرہ کے مقام کے علاوہ جے یو آئی ف کے کارکنان نے نوشہرہ کے حکیم آباد کے مقام پر بھی ایک اہم شاہراہ کو بند کیا ہوا ہے جہاں سے اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں سے پشاور آنے والے مسافر اسی روڈ کو استعمال کرتے ہیں۔
موٹر وے پولیس کے مطابق ملک بھر میں چکدرہ کے علاوہ پانچ مقامات پر شاہراہیں مظاہرین کی جانب سےروزانہ کی بنیاد پر رات تک بند ہوتی ہیں۔ اس میں نوشہرہ، انڈس ہائی وے کو ٹھیری کے مقام پر بند کیا ہوا ہے جس کی ٹریفک کو شاہ حسین چوک اور بابرلو بائی پاس کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
اسی طرح سکھر کے علاقے پنو عاقل کے مقام پر شاہراہ کو بند کیا گیا ہے اور پنو عاقل انٹرچینج اور گھوٹکی انٹر چینج کو بطور متبادل روٹ استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں یارو بائی پاس کو بند کیا گیا ہےجہان نمکین اور یارو ہوٹل کے روٹ کو بطور متبادل استعمال کیا جارہا ہے جب کہ حب ٹول پلازہ کے قریب بھی شاہراہ کو بند کیا گیا ہے اور سکران روڈ کو بطور متبادل استعمال کیا جارہا ہے۔
’حکومت عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور کر رہی ہے‘
’دیر قومی تحریک‘ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو دیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کرتی ہے۔ اس تحریک کے سربراہ ملک جہان عالم نے چکدرہ کے مقام پر بڑی شاہراہ کو بند کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن اور دوسری طرف حکومت اپنی سیاست کھیل رہی ہے اور بیچ میں عوام کو سینڈوچ بنایا ہوا اور ان کو عذاب میں مبتلا کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کئی دنوں سے سڑکیں بند ہیں لیکن حکومت بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی کہ وہ عوام کی پریشانی کو ملحوظ رکھ کر سڑکوں کو کھولنے کے لیے اقدامات کرے۔
اس تمام صورتحال پر ان کا کہنا تھا ’اگر یہ بندش کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ایک دن عام شہر ی اس پر مجبور ہوں گے کہ وہ قانون ہاتھ میں لے کر شاہراہوں کو بزور بازو کھول دیں جس سے تشدد کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی مشیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے اس صورتحال پر حکومتی موقف لینے کے لیےرابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔
’اسلام آباد سے ایسے نہیں آئے تھے‘
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بنوں میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ ہم پاکستان کی جمہوریت اورآئین کے تحفظ کے لیے نکلے ہیں۔
آزادی مارچ اور دھرنے کے حوالےسے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحٰمن کا کہنا تھا کہ ’ہم اسلام آباد ویسے نہیں گئے تھے، نہ ویسے واپس آئے ہیں۔‘
سڑکیں بند ہونے کے حوالے سے سربراہ جمعیت علمائے اسلام ف کا کہنا تھا کہ شاہرایں بند ہونے سے لوگوں کی تکلیف کا احساس ہے۔
انہوں نے عمران خان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں، میرے اور اپنے کردار کا مقابلہ کرو۔ میرے والد اور اپنے والد میرے دادا اور اپنے دادا کے کرداد کا مقابلہ کرو۔
مولانا فضل الرحٰمن کا کہنا تھا کہ قوم کو دوبارہ الیکشن کی جانب جانا ہو گا، ہم میدان میں کھڑے ہیں اداروں کے پیچھے چھپنے والے نہیں۔