بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں زمانہ قدیم سے لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے لیے ایک روایات چلی آرہی ہے جسے پشتو زبان میں ’بانڈار‘ یعنی محفل کہا جاتا ہے۔
ماضی میں بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں عام طور پر آلاتِ موسیقی رکھنے اور بجانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع اور عام محفلوں میں ’دَف‘ کے ذریعے لوگ گیت گاتے تھے۔ اس عمل کی کوئی ممانعت نہیں تھی، اس لیے بانڈار اب پشتون روایت کا حصہ ہے۔
ایسی محافل منعقد کرانے والوں کے مطابق ’بانڈار‘ میں دیہی شاعری ہوتی ہے، جس میں غزل، گیت، داستانیں، قوالی، نوحے، یادیں، نعت، منقبت اور طنز و مزاح شامل ہوتا ہے۔ عام طور پر اس روایتی تفریحی پروگرام میں گیت گانے اور دف بجانے والوں کی تعداد تین سے چار ہوتی ہے۔
بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک باغ میں منظور وفا اور ان کے کچھ دوستوں نے ’بانڈار‘کے پروگرام کا اہتمام کیا۔
منظور وفا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئےکہا کہ یوں تو بلوچستان میں نوجوانوں کے لیے تفریح کے مواقع محدود ہیں مگر وہ اس قدیم روایت میں ہی اپنے لیے تفریح تلاش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس مصروف دور میں ’بانڈار‘ عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملن کا واحد ذریعہ ہے ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منظور وفا کے بقول: ’یہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور ہے، جس کی وجہ سے ہم لوگوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہم بانڈار کے ذریعے لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔‘
’بانڈار‘ عام موسیقی کے پروگراموں سے مختلف ہے۔ اس میں موسیقی کے آلات جیسے طبلہ، ہارمونیم اور وائلن کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی اس میں ترنم اور سریلی آوازوں کی کوئی قید ہے۔ اس میں صرف ایک عام دفلی اور آٹا گوندھنے والے برتن کا استعمال کیا جاتا ہے۔
منظور وفا کے مطابق: ’بانڈار کی محفلوں میں مجازی اور حقیقی شاعری پر مشتمل گیت اور داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ وہ اب تک بلوچستان کے پشتون اور بلوچ اکثریتی علاقوں کے علاوہ کراچی، لاہور اور دوسرے شہروں میں بھی ایسی محافل میں حصہ لے چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جو لوگ موسیقی کو پسند نہیں کرتے اور اپنے گھروں میں گانے بجانے کے مخالف ہیں، وہ انہیں شادیوں میں بھی بلاتے ہیں جہاں سے ان کا کسی حد تک روزگار بھی وابستہ رہتا ہے اور کچھ آمدنی بھی ہوتی ہے۔‘
بعض لوگ بانڈار میں پشتو ٹپے بھی گاتے ہیں۔’ٹپے‘ کو پشتو لوک شاعری کی ایک قدیم صنف تصور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں عام طور پر تفریحی مقامات پر جمعے اور اتوار کے روز ’بانڈار‘ کرنے والوں کے گروپ نظر آتے ہیں، جن کا ایک منتظم ہوتا ہے جو لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے، تفریح پر آنے والے اخراجات کے لیے چندہ جمع کرتا ہے اور کھانے پینے کا سامان خریدتا ہے۔
بعض اوقات تفریحی مقامات پر شوقین افراد کیمپ لگاتے ہیں اور ایک ہفتے تک وہاں قیام کرکے ’بانڈار‘ اور روایتی کھانوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ان تفریحی مقامات میں کوئٹہ کا نواحی علاقہ ہنہ جھیل، ولی تنگی، پشین، زیارت، لورالائی، ہرنائی، چمن اور ژوب سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے آغا ملنگ بھی بانڈار کے شوقین ہیں۔انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بانڈار کرنے والے کسی باقاعدہ شاعری کے تحت ایسی محفلیں منعقد نہیں کرتے تھے مگر اب بانڈار کی صورت تبدیل ہوچکی ہے۔ اب اس میں طنزو مزاح کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے خاص طور پر جب لوگ پکنک منانے جاتے ہیں تو طنزو مزاح والے بانڈار کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔
آغا ملنگ کے بقول: ’شاعر ہمیں داستانیں، قوالی اور گیت لکھ کر دیتے ہیں جنہیں ہم بانڈار کے دوران لوگوں کو سناتے ہیں۔‘
بانڈار مختلف مقامات پر کیا جاتا ہے، جن میں چراہ گاہیں، تفریحی مقامات، شادی بیاہ اور تہواروں پر کی جانے والی محفلیں سرِفہرست ہیں مگر اب بانڈار کو اسٹوڈیوز میں باقاعدہ ریکارڈ بھی کیا جا رہا ہے، جس کی ویڈیوز سی ڈیز، یو ٹیوب اور فیس بک پر موجود ہیں۔
بانڈار کی محفلوں میں آنے والے لوگ بھی اس کا حصہ ہی ہوتے ہیں اور گیتوں پر جھومتے اور تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔
بانڈار کرنے والوں کے مطابق پشتونوں کی یہ روایتی تفریح دن بدن پروان چڑھتی جارہی ہے اور اب یہ گاؤں اور دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں اور بیرون ملک تک پہنچ گئی ہے۔