افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں اسلام آباد میں اٹھارہ فروری کو متوقع طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا نیا سلسلہ موخر کر دیا گیا ہے۔ افغان طالبان اور امریکی سفارت خانے کی جانب سے بھی مذاکرات موخر ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ان کے رہنما امریکی اور اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نہیں پہنچ سکیں ہیں۔ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ رہنما حالیہ دنوں میں قطر اور ماسکو کیسے جاسکے تھے۔ تاہم افغان حکومت نے اقوام متحدہ سے ان بلیک فہرست میں شامل رہنماوں کے پاکستان سفر کی اطلاعات پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
اس اعلان سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان تاخیر کا شکار کا ہوگیا ہے۔ انہوں نے تین روزہ دورے پر 18 فروری کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ قطر میں آخری مذاکرات میں 25 فروری کو دوحا میں ہی اگلے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پھر اچانک افغان طالبان نے ایک بیان میں 18 فروری کو بھی مذاکرات کا اعلان کیا۔ امریکہ نے بھی ان مذاکرات سے لاعلمی اور ان پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کروانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن ایک روز قبل مذاکرات موخر ہونا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات موخر ہونے کے محرکات کیا ہیں ؟
ان مذاکرات کا اعلان غیرمعمولی طور پر افغان طالبان نے ایک بیان کے ذریعے کیا تھا جس میں امریکی اہلکاروں سے ملاقاتوں کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بھی ملنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ تاخیر کی کوئی سرکاری سطح پر وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔ بعض ذرائع طالبان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔
تاہم دفاعی تجزیہ کار لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کی درخواست پر تعاون شروع کیا تھا۔ اگر پاکستان نے سہولت کاری روک کر امریکہ کو خاموش پیغام دینے کی کوشش کی ہے تو یہ بہت اچھا اقدام ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ واقعہ پر بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے بھارت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امریکہ نے پاکستان پر الزام دھر دیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
کیا اسلام آباد میں مذاکرات کا انعقاد مناسب فیصلہ تھا؟
سینئیر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کروانے کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا۔ اس فیصلے سے کابل حکومت کے ناراض ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا۔ افغان حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر اسلام آباد میں مذاکرات کرانا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔
عالمی امور کے ماہر، سینئر تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ ’افغان طالبان وفد کی امریکی حکام سے اسلام آباد میں ملاقات کے انعقاد پر کابل حکومت کا ردعمل سامنے آ رہا تھا جس کی وجہ سے ہو سکتا ہے پاکستان یا پھر افغان طالبان نے اس فیصلے پر نظرثانی کی ہو۔‘
کابل میں افغان حکام جو اب تک کے مصالحتی عمل سے باہر ہیں اسلام آباد میں نئے راونڈ سے بھی نالاں دکھائی دے رہے تھے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی کابل میں ایک روز قبل خبررساں ادارے اے پی کو ایک انٹرویو میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسلام آباد میں مذاکرات کے انقعاد سے افغانستان کے علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیزی سے آگے بڑھنے والے مصالحتی عمل کو علاقائی مفادات ہائی جیک کرسکتے ہیں۔
پلوامہ حملے کے معاملے پر امریکی بیانات میں پاکستان پر الزام تراشیاں
سینئیر تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ ’پلوامہ حملے کے معاملے پر پاکستان پر امریکہ کی جانب سے الزامات تراشیاں بے بنیاد ہیں۔ پاکستان کو اعلیٰ سطح پر اس معاملے کو اُٹھانے کی ضرورت ہے، ایک جانب امریکہ پاکستان سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔‘
جعمے کو دفتر خارجہ میں امریکی ناظم الامور پال جان کی آمد ہوئی۔ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکہ کی جانب سے پلوامہ حملہ میں پاکستان پر بے جا الزام تراشی پر سخت احتجاج کیا اور پاکستان کی جانب سے احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا۔ امریکی ناظم الامور کو دیے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ جیش محمد کالعدم جماعت ہے اس کی حرکات و سکنات کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ امریکہ نے مذمتی پریس ریلیز میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بھی کہا تھا اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کا ذکر کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر کی وجہ پلوامہ میں حملہ اور افغان حکومت کا اعتراض بھی شامل تھا۔