منیبہ خان کا تعلق صوابی کے ایک چھوٹے گاؤں گلو ڈھیری سے ہے۔آج پشاور کے ثقافتی مرکز میں ایک نمائش کے دوران وہ کینوس پر پینٹنگ کرنے میں مصروف تھیں۔ اطراف میں اور بہت ساری پینٹگز بھی عوام کی دلچسپی کے لیے رکھی گئی تھیں۔
مصوری کی دنیا میں منیبہ ابھی نئی ہیں لیکن ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے شوق کو بہت آگے تک لے کر جائیں گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں طب اور ٹیچنگ کے شعبے کے علاوہ کسی بھی فیلڈ میں جانا وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔
منیبہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے والدین سے مصوری کی فیلڈ میں داخلہ لینے کی بات کی تو وہ اس قدر برہم ہوئے کہ انہوں نے اس کی اجازت ہی نہیں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی بڑی بہن کی طرح طب کے شعبے میں آگے جاؤں، لیکن میں نے صرف ایک مہینے کی مہلت مانگ لی۔ آہستہ آہستہ جب وہ میرا کام دیکھنے لگے تو انھیں بھی اچھا لگا۔ اور پھر اس طرح میں نے اپنا شوق جاری رکھا۔ اب پینٹنگ میں ایم ایس کرنے کا ارادہ ہے۔ ‘
نشتر ہال میں فن مصوری کی نمائش اور مقابلوں کے منتظم خضر حیات آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ خانہ فرہنگ ایران کے ثقافتی مرکز میں کئی سالوں سے پینٹنگ سکھانے کے کام پر مامور ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گو پشاور میں اب بھی اس فیلڈ میں خواتین اتنی زیادہ نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ خواتین اس طرف آتی ہی نہیں ہیں۔
’پینٹنگ میں نہ صرف ذہنی سکون ہے بلکہ یہ ایک اچھا ذریعہ معاش بھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا کے اس کونے کی خواتین ڈاکٹر اور ٹیچرز بننے کے علاوہ دیگر فیلڈز میں بھی شمولیت اختیار کریں۔‘
اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے نشتر ہال میں منعقد کردہ سائنس اور فنون لطیفہ کی دو روزہ نمائش کے پہلے مرحلے کے مقابلوں کے ایوارڈز وفاقی وزیر علی محمد خان نے تقسیم کیے۔ انہوں نے تقریب کے منتظمین اور انتظامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی نمائشوں اور مقابلوں سے طالب علموں کو مزید آگے جانے کا حوصلہ ملتا ہے۔