لاہور میں تین روز تک رفیع پیر انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول جاری رہا۔ آٹھ برس بعد اس میلے میں کچھ بین الاقوامی فنکاروں نے بھی شرکت کی جن کا تعلق جرمنی، انڈونیشیا اور ترکی سے تھا۔
میریم ایلنبروک کا تعلق تو فرانس سے ہے مگر جرمنی سے تھیٹر کی تعلیم حاصل کی تو اسی لیے ان کی ترجمانی کے لیے یہاں آئیں۔ ان کے شو ڈریگن کو یہاں کافی پذیرائی ملی۔ 'میں نے یہ کہانی ایک انڈے سے شروع کی کہ کیسے اس میں سے ایک معصوم بچہ نکلتا ہے اور پھر وہ ایک درندے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ یہ کہانی علامتی ہے، اور یہ شاید میری اپنی زندگی سے تعلق رکھتی ہے'۔
میریم دوسری مرتبہ پاکستان آئی ہیں اور لاہور گھومنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ 'میں نے آتے ہوئے یہ بالکل نہیں سوچا کہ میں پاکستان جا رہی ہوں تو وہاں کچھ خطرہ ہو سکتا ہے۔ فرانس خود اس قدر دہشت گردی کا شکار ہوچکا ہے کہ ہم کسی اور ملک کے بارے میں کیا کہیں یا اس سے کیا ڈریں'۔
تھیٹر کی اہمیت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کے لیے بہت ضروری ہے، 'آج کل بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون یا ٹیبلٹس ہوتے ہیں، میں اس کے خلاف ہوں۔
میں چاہتی ہوں وہ سب کے ساتھ مل کر براہ راست پرفارمنسز دیکھیں اور ایسے فیسٹیولز اس کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
انڈونیشیا کے پیپر مون پپٹ تھیٹر نے بھی اس فیسٹیول میں شرکت کی۔ ان کے شوپُونو کے مرکزی فنکار تیس سالہ سپینی کہتے ہیں کہ وہ پہلی بار پاکستان آئے ہیں۔ 'ہم نے اپنی کہانی پُونو میں قریبی رشتے جیسے بیٹی کے باپ سے بچھڑ جانے کی تکلیف کو اجاگر کیا ہے، ہم نے حاضرین کو اپنی پرفارمنس سے رلایا بھی ہے'۔
عائشہ عمار جو اپنے بچوں کے ہمراہ یہ شو دیکھ رہیں تھیں ان کے خیال میں بین الاقوامی فنکاروں کا کام بہت اچھا ہے۔ 'ہم نے اب تک جتنے غیر ملکی شوز دیکھے ہیں ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں کوئی زبان نہیں بولی گئی صرف چند آوازوں اور ایکٹنگ کے ساتھ ساری بات سمجھائی گئی۔ جو بچوں اور بڑوں دونوں کو سمجھ بھی آ گئی۔ بہت مزا آیا۔ اس فیسٹیول کے لئے تین دن بہت ہی کم ہیں، تین روز میں تو ہم سب کچھ دیکھ بھی نہیں پاتے'۔
رفیع پیر انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول کے ڈائریکٹر سعدان پیرزادہ کہتے ہیں کہ آٹھ برس کے بعد تین بین الاقوامی گروپس نے اس تقریب میں شرکت کی ہے جو خوش آئند ہے۔ 'ہم گذشہ تیس برس میں 65 ملکوں کی 250 سے زیادہ بہترین پپٹ تھیٹر کمپنیوں کو پاکستان لائے جب یہ فیسٹیول شروع ہوا تو ہر برس اس میں اس میں 30 سے 35 ملکوں کے وفود آتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ جب یہ صرف قومی تقریب رہ گئی مگر اب میں بہت خوش ہوں کہ چیزیں واپس اپنی جگہ پر آرہی ہیں'۔
ان کے مطابق یہ ہماری ثقافت کا ایک بڑا امتحان ہے۔ اپنی جڑوں کو بچانے کے لیے اس میں ہمیں بہت زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ جتنے بھی معاونین تھے وہ گذشتہ دس برس میں غائب ہو گئے کیونکہ چیزیں ان کے لیے بھی تبدیل ہوئیں۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا جس کی وجہ سے یہ تقریبات بھی متاثر ہوئیں۔ پھر میڈیا میں تبدیلی آئی سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا سو یہ سب ثقافتی تقریبات پیچھے رہ گئیں۔
سعدان کے خیال میں پاکستان میں اب چند ہی گروپس رہ گئے ہیں جو ملکی ثقافت کو بچانے کی کوشش میں ہیں۔ 'دیکھا جائے توایسی تقریبات نہ صرف معیشیت میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں بلکہ سیاحت، تعلیم اور ذہنی صحت میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ہم نے یہ سب شروع کیا تھا تو 700 کے قریب غیرملکی فنکار گیارہ دن کے لیے پاکستان آتے تھے۔ وہ واپس جاتے ہوئے پاکستان کا ایک اچھا تصور لے کر جاتے تھے اور اس کا اثر بہت زیادہ تھا۔ ان کے آنے سے پاکستانی ائیر لائن کو بہت فائدہ ہوتا تھا اورسیاحت کو فروغ ملتا تھا۔ وہ تمام غیر ملکی فنکار یہاں خرید و فروخت کرتے تھے پیسہ خرچ کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو دنیا بھر میں تخلیقی معیشیت پانچویں نمبر پر آتی ہے مگر پاکستان میں اس معیشیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی پالیسی ہی نہیں بنی، اگر بنی بھی تو اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔"
سعدان پیرزادہ کے بھائی عمران پیرزادہ جو خود بھی اس ثقافتی تقریب کے ڈائریکٹر ہیں ان کے مطابق اس تقریب کو جاری رکھنے میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 'اگر ہمارے پاس یہ اپنی جگہ نہ ہوتی تو شاید ہم اس ثقافتی تقریب کو جاری نہ رکھ پاتے، ہاں اب یہ ہے کہ ہم اس کی سکیورٹی کا خود خیال رکھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب خیر و عافیت سے ہو جائے'۔
اس تقریب میں شرکت کے لئے ٹکٹ 350 روپے رکھی گئی جس کے حوالے سے عمران پیرزادہ کا کہنا تھا کہ 'یہ تقریب ایک مخصوص طبقے کے لیے ہے کیونکہ ایک تو ہم اب اتنے زیادہ لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکتے دوسرے یہاں کام کرنے والے سب لوگوں کو کچھ نہ کچھ معاوضہ دینا ہوتا ہے۔
ہاں البتہ ہم اس کے علاوہ شوز کرتے ہیں یا ایسی ورک شاپس کرتے ہیں جس میں ایسے بچے آتے ہیں جو اس تقریب میں شرکت نہیں کر پاتے، وہ یہاں آکر پتلی تماشہ بھی دیکھتے ہیں اور ہم انہیں کام بھی سکھاتے ہیں'۔
ارم ثناء جو لاہور کے ایک تھیٹر اولوموپولوکی بانی ہیں، ان کے خیال میں رفیع پیر تھیٹر پتلی تماشے کی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ 'میرے خیال میں اس میں مزید بہتری آسکتی ہے کہ اگر ہم اس کا وقت اور بڑھا دیں اور اسے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی متعارف کروائیں۔ اس میں ترقی پسند خیالات اور معاشی مسائل پر مبنی کہانیاں بھی ہونی چاہئیں تاکہ لوگ اس سے جڑ سکیں اور سیکھ سکیں'۔
رفیع پیر انٹرنیشنل فیسٹیول میں لاہور آرٹس کونسل اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس راولپنڈی نے بھی شرکت کی۔ یہاں کتابوں، دست کاریوں اور فن پاروں کے سٹالز بھی لگائے گئے تھے اور بچوں کو پتلیاں بنانے کا فن بھی سکھایا گیا۔
ہزاروں بچوں اور بڑوں نے تین روز تک جاری رہنے والی اس تقریب سے خوب لطف اٹھایا۔