ماہ دسمبر کے آغاز سے پہلے ہی ’دسمبر کی شاعری‘ سوشل میڈیا کو سموگ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھراس شاعری کے سوا کہیں کچھ دکھائی اورسجھائی نہیں دیتا۔
دسمبر کی ڈگڈگی نومبر ہی میں بجنا شروع ہوجاتی ہے اور نومبر کے مہینے میں ہی یار دوست سوشل میڈیا پر آوازیں کسنے لگتے ہیں کہ تیارہو جاﺅ دسمبر آ رہا ہے اور پھر دسمبر آ جاتا ہے۔
جیسے ہی رات کے 12 بجتے ہیں اور یکم دسمبر شروع ہوتا ہے سوشل میڈیا پر ایک ہی لفظ دکھائی دینے لگتا ہے، ’اسے کہنا دسمبرآ گیا ہے۔‘
کسے کہنا ہے؟ کوئی ایسا ہے بھی یا نہیں، جسے کہنا ہے کہ دسمبرآ گیا؟ کوئی بھی کسی سے کچھ نہیں پوچھتا بس دسمبرآ گیا ہے کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔
یہ مصرعہ ضرب المثل کی صورت اختیار کرچکا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ اسے ضرب المثل ہمارے بہت ہی محترم عرش صدیقی صاحب نے بنایا۔ عرش صاحب ملتان کے نامور شاعر، افسانہ نگار ، دانشور اورماہرتعلیم تھے۔
انہوں نے1972 میں 10مصرعوں کی ایک بے مثال نظم کہی ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔‘ بات آگے بڑھانے سے قبل آئیے پہلے وہ نظم پڑھ لیتے ہیں۔
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اوران پربرف کی چادر جمی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
اس نظم سے پہلے دسمبرکو اردو شاعری کا موضوع کسی نے نہیں بنایا تھا۔ عرش صدیقی انگریزی ادبیات کے استاد تھے۔ وہ ملتان میں طویل عرصے تک ایمرسن کالج میں پڑھاتے رہے۔
انگریزی ہی نہیں دیگر زبانوں اور موضوعات پر بھی انہیں مکمل دسترس حاصل تھی۔ وہ نقاد بھی تھے اور محقق بھی۔ پنجابی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے اور ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ بھی منظرعام پر آیا۔
غزل کے علاوہ عرش صاحب کی بہت سی نظموں نے شہرت حاصل کی، جن میں ا یک نظم ’محبت لفظ تھا میرا‘ بھی شامل ہے ۔ یہی نام انہوں نے اپنے شعری مجموعے کو بھی دیا تھا۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے انہیں اُس وقت شہرت حاصل ہوئی جب ان کے افسانوں کے مجموعے ’باہر کفن سے پاﺅں‘ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ اپنے زمانے کا بڑا ایوارڈ تھا۔ افسانوں کے مجموعے کا یہ چونکا دینے والا نام بھی بہت مشہور ہوا تھا لیکن ضرب المثل والی شہرت صرف دسمبروالی نظم کے حصے میں آئی۔
عرش صاحب ایک محبت کرنے والے انسان تھے۔ ملتان کے ادب کو عرش صاحب نے جس طرح نئے رجحانات سے آشنا کیا اس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ 1960 کے عشرے میں عرش صدیقی صاحب نے ملتان میں تنقیدی اجلاسوں کی روایت قائم کی۔
فوجی آمر ایوب خان نے جمیل الدین عالی کے ذریعے جب رائٹرز گلڈ قائم کی تو اس کی ایک شاخ ملتان میں بھی وجود میں آئی۔ رائٹرز گلڈ ملتان کے سیکرٹری کی حیثیت سے پروفیسر عرش صدیقی نے ملتان میں تنقیدی اجلاسوں کی روایت قائم کی۔
رائٹرز گلڈ کے اجلاس ملتان کے گلڈ ہوٹل میں منعقد ہوتے تھے۔ اس زمانے میں ان اجلاسوں میں خوب گہما گہمی ہوتی تھی۔ ان اجلاسوں کے ذریعے اعتبار ساجد، خالد شیرازی، یحییٰ امجد، حسین سحر، اقبال ارشد اور انوارانجم جیسے نامور شاعر اورنقاد ادبی دنیا میں متعارف ہوئے ۔ یہ ان سب لکھاریوں کی جوانی اور لڑکپن کا زمانہ تھا اوررائٹرز گلڈ سے انہوں نے جو پرواز شروع کی تھی اس نے انہیں ادب کے افق پر دور تک پہچان عطا کی۔
اسی دوران انتخابی چپقلش کے نتیجے میں عرش صاحب رائٹرزگلڈ سے الگ ہوگئے اور انہوں نے اردو اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ 1968 میں اکیڈمی کے قیام کے بعد ملتان میں ادب کے ایک نئے دور کا آغازہوا۔ اردو اکیڈمی بھی لکھاریوں کی ایک نئی کہکشاں سامنے لائی۔
اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے جو لوگ ادبی دنیا میں متعارف ہوئے ان میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر اور اصغر ندیم سید کے نام قابل ذکر ہیں۔ عرش صاحب نے زکریا یونیورسٹی ملتان کے رجسٹرار کے طورپر بھی فرائض انجام دیے۔
دسمبر کے مہینے میں جب بہت سے اشعار اور نظمیں گردش میں آتی ہیں تو ہم دوستوں سے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کیا دسمبر کی ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت ہے؟
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے اور جنوری سے نئے سال کا آغازہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جنوری اور نئے سال کے اشعار اور نظمیں توہمیشہ سے اردو شاعری کا موضوع رہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ نئے سال کے آغاز پر دکھ بھی یاد آتے ہیں اور بیتے ہوئے سال کی یادیں بھی ہمیں اپنے حصار میں لیتی ہیں لیکن دسمبر میں آخر ایسی کون سی بات ہے کہ اسے شاعری کا موضوع بنایا جائے اورعرش صاحب کی نظم سے پہلے کسی کو دسمبر یاد کیوں نہ آیا؟
دسمبر دراصل کرسمس کا مہینہ ہے، جس طرح ہمارے ہاں عید اردو شاعری کا ہمیشہ سے موضوع رہی، اسی طرح انگریزی ادب میں کرسمس اور دسمبر کو موضوع بنایا گیا۔ انتظارکی وہی کیفیت جو ہمارے ہاں عید کے موقع پر ہوتی ہے، ان کے ہاں کرسمس پردکھائی دیتی ہے۔
یہ شدید سردی کا بھی مہینہ ہے، جس طرح تہوار لوگوں کو اداس کردیتے ہیں اسی طرح موسم بھی مزاج پر اثراندازہوتے ہیں۔ برستے موسم، دھند والے موسم اور برفانی موسم حساس لوگوں کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی شاعروں نے دسمبر اور برصغیر کے شاعروں نے ساون کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ عرش صاحب چونکہ انگریزی کے استاد تھے، اس لیے انہوں نے بھی اسی موسم، اسی مہینے اور اداسی کی کیفیت کو کچھ اس اندازمیں اپنی نظم کا حصہ بنایا کہ وہ ہماری دھرتی سے تعلق نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی۔
یہ ایک بڑے شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ جب کسی موضوع کو اپنی شاعری کاحصہ بناتا ہے تو اپنی فنکارانہ مہارت کے ذریعے اسے اس سطح پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ موضوع ہرانسان کے لیے یکساں اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔
خواہ اس موضوع کا اس کی دھرتی کے ساتھ تعلق نہ بھی ہو۔ عرش صاحب ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد آٹھ اپریل 1997 کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے، لیکن ہر دسمبر وہ ہمیں یاد آتے ہیں اور ان کی آواز اسی طرح ہمارے کانوں میں گونجتی ہے، جیسے وہ دسمبر کے مہینے میں ملتان کی مختلف محفلوں میں اپنی یہ لافانی نظم سنایا کرتے تھے۔