’مرگِ انبوہ‘ ناول نہیں ہے، ایک طویل نوحہ ہے، ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی کتھا ہے، ان کے حال کا احوال ہے اور مستقبل کی جھلک بھی۔ یہ سیاسی، سماجی، ثقافتی، اخلاقی، مذہبی اور اقتصادی منظرنامے کی ہر لحظہ تغیر پذیر حالت کا بیان ہے۔
اس ناول کو پڑھنے کے بعد میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ ناول ایسے بھی لکھا جاسکتا ہے۔ حقائق پرت در پرت اس طور بھی کھولے جاسکتے ہیں۔
کہانی کی بُنت براہِ راست سیاست اور سماج سے کی گئی ہے۔ مرکزی کردار دو ہیں۔ جہانگیر مرزا اور اس کا 20 سالہ بیٹا پاشا مرزا۔ معاشرے میں بدی نیکی پر غالب ہے۔ ٹیکنالوجی، مادیت پرستی، انٹرنیٹ اور بلیو وہیل کے جبڑوں میں پھنسی ہوئی نوجوان نسل اپنے ماضی، تہذیب اور خدا کو قصہ پارینہ سمجھتی ہے۔ وہ ’ینگستان‘ کی نسل ہے، جو موت کو ایک کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ اس کے اپنے آدرش اور اپنے ہی قاعدے ہیں۔
جنریشن گیپ اس قدر ہے کہ ماں باپ سے ذہنی فاصلہ نوری برسوں پر محیط ہوچکا ہے۔ ایک چھت تلے رہنے کے باوجود سبھی الگ الگ کہکشاؤں کے مسافر ہیں۔ جہانگیر مرزا ایک ادیب ہے مگر پاشا مرزا باپ کے لکھنے کو ایک فضول کام سمجھتا ہے، اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ پر پڑھنے والی نسل کو کتب خانہ کباڑ خانہ لگتا ہے۔ اس نسل کے آئیڈیل اسٹیفن ہاکنگ، اسٹیو جابز، بل گیٹس اور مارک زکر برگ جیسے لوگ ہیں۔
دوسری طرف بھارت میں 2014 کے بعد ہندو راشٹرواد کے نام پر بڑی عیاری سے اقلیتوں کو حاشیے پر کیا جا رہا ہے۔ نازی طرز پر 17 کروڑ مسلمانوں کے ہولوکاسٹ کی منصوبہ بندی کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں ایک بڑے جادوگر کا راج ہے، جو کبھی جوتے پالش کیا کرتا تھا اور اب وہ بی مشن کا کرتا دھرتا ہے۔
پورے دیش کی دیواریں زعفرانی رنگ سے رنگ دی گئی ہیں، ہر طرف گائیں گھومتی پھرتی ہیں، ان کی پوجا پاٹ کا اہتمام ہو رہا ہے۔ سرخ چیونٹیوں کی قطاریں مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ گئی ہیں، جو ہر چیز کا صفایا کیے جارہی ہیں۔ شہروں کے نام بدل دیئے گئے ہیں، شاہراؤں کے نام بدلے جارہے ہیں، گلی محلوں کے مسلم نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ نقش مٹایا جارہا ہے جس سے مسلمانوں کا تعلق رہا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تو ہندوستان میں اکبر بادشاہ بھی نرغے میں ہے۔ زعفرانی لباس میں جے شری رام کے نعرے لگاتے جتھے گھومتے ہیں۔ فریج میں پڑا مٹن بیف بن جاتا ہے اور وہ ہجوم مسلمانوں کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ بڑے بڑے ٹرک گھومتے ہیں، جہاں لوگ گیس بنا کر اڑا دیئے جاتے ہیں، ان کے گھروں کے نقش تک باقی نہیں رہتے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں گاندھی کو دیش سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کے پتلے جلائے جارہے ہیں، پوسٹر پر گولیاں برسائیں جاتی ہیں اور گاندھی کے قاتل گوڈسے کے نام پر مندر پر مندر آباد کیے جارہے ہیں۔
یہ سب جادوگر کے کرشمے ہیں۔ جہاں قاتل سرکار بناتے ہیں، گہنگار بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں اور اہنسا اور شانتی کا پرچار کرنے والے زندانوں میں سڑ رہے ہیں۔ گینگ ریپ کرنے والوں کے حق میں جلوس نکلتے ہیں اور انصاف مانگنے والوں کو موت کے پروانے تھما دیئے جاتے ہیں۔ کشمیر کے 370 چناروں کو فاشزم نے آگ لگادی ہے اور 35 جھیلوں کا پانی سوکھ گیا ہے۔ وادی بندی خانہ ہے جہاں فوج کا پہرہ ہے اور بندوق کا راج ہے۔
مرگِ انبوہ، قد آور ادیب مشرف عالم ذوقی کا ایسا ناول ہے، جسے اردو کے دامن میں ایک قابلِ قدر اضافہ کہنا چاہیے۔ منطق و فلسفے کی ڈور سلجھانے کی بجائے سیدھے سبھاؤ بات کہہ دی گئی ہے۔ مودی سرکار اور آر ایس ایس کی کارستانیوں، نام نہاد سیکولرازم، روز بروز کمزور ہوتی جمہوریت، جڑ پکڑ چکے فاشزم کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
ہندوستان میں رہتے ہوئے ذوقی نے جس موضوع کو قلم بند کیا ہے، یہ بڑی جرات کا کام ہے۔ یہ ناول اس قدر تلخ ہے کہ کئی برس تک آپ کے ذہن سے محو نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسی انوکھی تحریر ہے کہ روسی اور فرانسیسی ادب کی طرح جس کا حوالہ آنے والے زمانوں میں دیا جائے گا۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں پر کیا بیت رہی اس کا یہ احوال ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ فی الفور اس کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں یہ ناول پہنچ سکے۔ بقول مشرف ذوقی، یہ تین ناولز پر مشتمل سیریز ہے اور مرگِ انبوہ اس سیریز کا پہلا ناول ہے۔ اس سے قبل مشرف عالم ذوقی درجن بھر ناولز لکھ چکے ہیں۔ ان کے ناول آتشِ رفتہ کا سراغ، نالہ شب گیر اور لے سانس بھی آہستہ ہمہ گیر شہرت حاصل کرچکے ہیں۔