میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، ملتان کی سرکاری یونیورسٹی تھی۔ اب بھی شاید وہی حال ہو جو اُس وقت ہوتا تھا۔ لڑکوں کی دوستی لڑکیوں سے کسی بھی صورت میں شدید مشکوک نظروں سے دیکھی جاتی تھی۔ اس میں سیف طریقہ ایک ہی تھا، یعنی بھائی بنا لیا جائے۔ اب جو لڑکی آپ سے بات ہی بھائی کہنے کے بعد کر رہی ہے اس سے کیا سہانے سپنے وابستہ کیے جا سکتے ہیں؟ فقیر خود کئی لڑکیوں کا بھائی تھا اور کئی دوسرے بھائیوں کو سکون سے اٹھتے بیٹھتے دیکھا کرتا تھا۔ کچھ لڑکیاں بھائی نہیں کہتی تھیں۔ اُس وقت سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر یہ کیوں نہیں کہتیں، اب سمجھ دانی پہ زور دیا بھی جائے تو شکلیں تک دھندلا چکی ہیں، کیا فائدہ؟
بعد میں زندگی نے موقع دیا تو آئیڈیا ہوا کہ پاکیزہ محبت یا ’پلیٹونک ریلیشن شپ‘ سے اگلا مرحلہ بھائی یا بہن بنانے کا ہوتا ہے۔ ہم سب چور ہیں۔ اپنے اندر سے ڈرتے ہیں، اپنے باہر سے ڈرتے ہیں۔ سکول، کالج، یونیورسٹی میں استادوں اور کلاس فیلوز سے خوف کھاتے ہیں، وہاں نہ ہوں تو گھر والوں، رشتے داروں اور محلے کا ڈر ہوتا ہے۔ ایسے میں صاف ستھرا طریقہ یہ نظر آتا ہے کہ چلو بھائی بنا لو یا بہن کہہ دو، بس سارے لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے۔ اصل میں یہ دونوں چیزیں بڑی باریکی سے ایک دوسرے کا الگ نام ہیں۔ پاکیزہ محبت اور بھائی بہن چارہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئی کم عمر لڑکا کسی لڑکی سے بات کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ اس میں قدرتی طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں اسے جانوں، اسے سمجھوں، وہ میری باتوں سے لطف اندوز ہو، میں اس کی کمپنی انجوائے کروں اور دور، بہت دور، پیچھے کہیں ایک چراغ جل رہا ہوتا ہے جسے کشش کا نام دے دیجیے، سہولت رہے گی۔ ابھی وہ دونوں خود اپنے آپ میں کلیئر نہیں ہوتے کہ ہم کیوں بات کرنا چاہ رہے ہیں، کیا بہانہ ہو کہ گفتگو شروع ہو، کیسے کہا جائے کہ یہ نوٹس آپ رکھ لیں، میرا کچھ اور بندوبست ہو جائے گا یا چائے پانی کی دعوت کیسے دی جائے؟ یا ایسا کچھ بھی۔ کوئی بھی ہلکا سا بہانہ کہ جس سے کچھ سلام دعا شروع ہو۔ تو وہ دونوں اس کشمکش میں ہوتے ہیں لیکن ایک چیز کنفرم ہوتی ہے کہ آخری پناہ بھائی یا بہن کہہ دینے سے مل جائے گی۔ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ اس رول کو لوگ تھوڑا بہت قبول کر لیں گے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں اور ہم اپنی اولادوں کو وہ اعتماد نہیں دے پاتے کہ دوسری پارٹی سے بات کرنے پہ یا ساتھ بیٹھنے پہ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ ان کے معصوم ذہن اسی چکر میں الجھے رہتے ہیں کہ جہاں کچھ ایسا ویسا ہوا، پھینٹی الگ چڑھنی ہے، سکول کالج بھی یا تو بدلوا دیں گے یا سرے سے ہی اٹھوا لیں گے۔
اصل میں وہ اکٹھے بیٹھنا چاہ رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے دیر تک ڈھیروں باتیں بھی کرنا چاہتے ہیں، اگر غلطی سے ہاتھ ٹچ ہو جائے تو اس پہ بھی گھنٹوں سوچتے رہیں گے، انہیں ایک دوسرے کا پرفیوم بھی اچھا لگے گا لیکن ساتھ ساتھ انہیں وہ فاصلہ بھی برابر رکھنا ہوگا جس کے لیے انہوں نے ایک دوسرے کو بھائی بہن ڈکلیئر کیا ہے۔ یہ بہت پیچیدہ صورت حال ہوتی ہے۔ اُس وقت تو کیا اندازہ ہونا ہے لیکن اب سوچتا ہوں تو قسم سے ترس ہی آتا ہے۔ کیسے گئے گزرے لوگ ہیں یار ہم؟ مطلب جو پندرہ بیس سال بے فکری کے ہوتے ہیں ان میں بھی ہم اور ہمارے بچے ایک قدم آگے بڑھا کے دو قدم پیچھے ہٹتے رہتے ہیں؟ کیوں؟ کیا اب ہم انہیں کچھ بہتر ماحول نہیں دے سکتے؟ جہاں انہیں یہ ٹینشن نہ ہو کہ ’ابّے کولوں کُٹ پینی اے‘ اور ماں نے کہنا ہے کہ ’مجھے پتہ تھا تو نے یہ چاند چڑھانا ہے؟‘ جو خیالات اس بلاگ میں ہیں وہ ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی کے نزدیک بکواس ہوں گے لیکن یار سوچیں تو سہی۔ ضروری ہے کہ جو کچھ ہمیں پاس آن ہوا ہے وہ سارا بے اعتمادی کا خزانہ ہم اسی طرح آگے بڑھا دیں؟ یہ ہم جیسے ہی بچے ہوتے ہیں جو بعد میں بڑے ہو کر بھی ساری عمر کسی عورت یا مرد سے کونیفیڈنس کے ساتھ بات نہیں کر پاتے۔ جہاں ہمیں کسی کو اس کے نام سے مخاطب کرنا پڑ جائے ہمیں موت پڑ جاتی ہے۔ ہائے اس نے کیا سوچنا ہے۔ میں نے ڈائریکٹ نام لے لیا۔ کہیں وہ کوئی خوش فہمی (یا غلط فہمی) نہ پال لے! کہیں وہ یہ نہ سوچے، کہیں کوئی کچھ اور نہ سوچے، اور ایسا بہت کچھ!ایک صورت حال دوسری ہوتی ہے۔ لڑکیاں اپنے آپ کو غیرضروری چکروں میں الجھانے سے بہتر یہ سمجھتی ہیں کہ شروع دن سے ہی ہر ایک کو بھائی بنا لیں، نہ کوئی لڑکا پیش قدمی کرے گا، نہ اپنا بھرم خراب ہوگا۔ کتنے لڑکے آپ نے دیکھے ہیں جو لڑکیوں کو بہن کہہ کر بلاتے ہوں؟ ہاں عمر میں فرق یا سماجی حیثیت کی وجہ سے تو باجی کہہ کر بلا لیں گے لیکن جہاں برابر لیول پہ ہوں جیسے سکول، کالج، یونیورسٹی یا دفتر، وہاں کوئی لڑکا سب خواتین کو پہلے دن سے آپا یا باجی کیوں نہیں کہتا؟ اس وجہ سے کہ جو غیر محفوظ محسوس کرے گا وہ اس رشتے کی چھتر چھایا میں چھپنا چاہے گا۔ ہمارے یہاں لڑکیاں غریب چونکہ اپنے ماحول، اپنے تجربوں، اپنی زندگی، اپنے آس پاس ہر چیز سے ڈری ہوتی ہیں تو وہ پہلے دن سے بھائی کہہ کر اپنی طرف سے مکمل بوجھ اٹھا پھینکتی ہیں۔ کوئی حرج نہیں۔ یہ مکمل یک طرفہ بچاؤ کا معاملہ ہے۔ اگر وہ ایسے محفوظ تصور کرتی ہیں تو اس پر کوئی دوسری رائے نہیں دی جا سکتی۔
ایک چیز اور ہوتی ہے۔ وہ ایسی شدید تکلیف دہ ہوتی ہے کہ توبہ۔ آپ رل گئے، دن دیکھا نہ رات دیکھی، سامنے والے کی خاطر ہر کام کیا، ہر اچھے برے میں دوستی نبھائی، چھٹی کے دن خواریاں کاٹیں، الٹی سیدھی فرمائشیں پوری کیں، سردیوں میں ساتھ آئسکریمیں کھائیں اور گرمیوں میں کم بخت گرم چائے کے مگے ساتھ بیٹھ کے اندر انڈیلے، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اچانک ایک دن آپ سے کہا جائے گا: ’یار دیکھو، یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ہم صرف اچھے دوست ہیں۔‘ مطلب کیا اچھے دوست؟ ابے یہ تو منہ بولے بہن بھائی بنانے سے بھی زیادہ خطرناک ہاتھ ہو گیا؟ نہیں؟ اچھے دوست کیا دنیا میں پہلے نہیں ملے ہمیں؟ یا تمہیں اچھے دوستوں کی کمی ہے؟ تو بھیا یہ زیادتی ہے۔ ایسے کسی کو خوار نہیں کرتے۔ اسے گورے ’برو زون‘ میں ڈالنا کہتے ہیں۔ تان وہیں ٹوٹتی ہے جہاں سے بات شروع ہوئی تھی بس یہ ہاتھ تھوڑی زیادہ عمر میں آ کر ہوتا ہے۔
تو خیر۔ بات اتنی سی ہے کہ بہن بھائی وہی ہوتے ہیں جو ماں باپ نے اپنی سہولت کے مطابق آپ کے ساتھ ایڈجسٹ کر دیے۔ باقی سب کا اس دنیا میں کوئی ایک نام ہوتا ہے۔ اگر شروع سے دماغ کو یہ بات سکھا دی جائے اور ساتھ تھوڑا سا اعتماد دیا جائے تو کوئی لڑکی کسی لڑکے سے بات کرتے ہوئے اسے بھائی نہیں بلائے گی اور کوئی لڑکا اسے بہن ڈکلیئر نہیں کرے گا۔ یہ ترسی ہوئی نسلوں کی یادگاریں ہیں۔ ان سے اب پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ بہت تکلف ہے تو صاحب یا صاحبہ لگا لیجیے، محترم یا محترمہ کہہ دیجیے، غصہ ہے تو مادام یا مسٹر کہہ لیں، کام چل جائے گا۔
باقی رہ گیا آپ کا بھائی، تو وہ ایسا ہی ہے۔ اتفاق نہیں کرتے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، کرتے ہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنا کام ہے لالٹین پکڑ کے راستہ دکھا دینا، جو بڑھ گیا اس کا بھی بھلا جو نہ بھلا اس کا تو بھلا چل ہی رہا ہے۔ زیادہ آداب!