تین دن جاری رہنے والے ملکی تاریخ کے انتہائی اہم مقدموں میں سے ایک کی سماعت بالآخر جمعرات کو اختتام پر پہنچی۔ حزب اختلاف تین دن تک جاری رہنے والے بحران کا تمام ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کی ذمہ دار حکومت تھی یا پارلیمان؟
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے یہ کیس اختتام پر پہنچنے سے پہلے موجودہ حکومت کی قانونی معاملات میں قابلیت کی قلعی بھی کھول گیا۔ اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو مدعی کی سستی کے باوجود نہ اٹھاتی تو شاید اس مرتبہ بھی ہر کوئی فوجی سربراہ کی توسیع خاموشی سے قبول کر لیتا لیکن قانونی طور پر وہ درست نہ ہوتی۔ تو قوانین کو حالات کے مطابق ڈھالنے کا کام کس کا ہے؟
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ یہ کیس ماضی اور موجودہ پارلیمان کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ قانون سازی پارلیمان کا بنیادی فریضہ ہے جس کے لیے عوام اراکین پارلیمان کو منتخب کرتے ہیں لیکن ایک روایت رہی ہے کہ اراکین کی توجہ قانون سازی کے علاوہ تمام دیگر امور پر ہوتی ہے۔
ان تین دنوں میں کیس کی سماعت کے دوران کئی مواقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے حکومت کو مدت ملازمت میں توسیع کی سمری میں موجود فاش غلطیوں پر آڑھے ہاتھوں لیا۔
ایک موقعے پر خود چیف جسٹس نے اٹارنی جنرلانور منصور خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسے تو کسی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آپ نےکی، آپ نے تو آرمی چیف کو شٹل کاک بنا رکھا ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ ایک ایڈوکیٹ ریاض حنیف راہی کی ایک درخواست کی بدولت سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ انہوں نے متعدد بار مختلف شخصیات کی تعیناتیوں اور تقرریوں کو بھی چیلنج کیا، لیکن اس سے قبل اُن کی کوئی ایسی نوعیت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو چیلنج کرنے کا خیال ریاض راہی کو مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے دھرنے میں آیا۔
ایک صحافی کے مطابق درخواست گزار نے اُنہیں آزادی مارچ کے دوران اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ آرمی چیف کی توسیع چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم جب درخواست دائر ہونے کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہوئی توانہوں نے کسی صحافی کا فون نہ اُٹھایا اور منگل کی روز ہاتھ سے لکھی ایک درخواست عدالت میں جمع کروا دی کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتا ہے۔
میڈیا کے ایک حصے میں غلط رپورٹنگ پر عدالت نے بدھ کو واضح کیا کہ یہ ازخود نوٹس ہر گز نہیں چونکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس ایک بھی ازخود نوٹس نہیں لیا، اس لیے عدالتی صحافیوں نے درخواست واپسی کی استدعا کے باوجود جاری سماعت کو ازخود نوٹس سمجھا تھا ۔
یوں یہ کیس چل پڑا اورمنگل کو پہلے دن بینچ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پہ بُلا کر سوالات شروع کر دیے۔ اُس وقت کمرہِ عدالت میں بہت کم صحافی اور وکلا موجود تھے، کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کیس کی سنوائی ہو گی اور وہ بھی اتنا زیادہ وقت لے گی۔
ایک گھنٹہ پندرہ منٹ سماعت جاری رہی اور توقع کے برخلاف عدالت نے حکومت کی طرف سے جاری کردہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔
کئی وکیل جو آرمی چیف کی توسیع کے حامی نہیں تھے، اس غیر متوقع حکم پر عدالت سے 'نو ایکسٹینشن' کے نعرے لگاتے باہر نکلے۔
سماعت کے دوران عدالت اپنے آئینی سوالات دہراتی رہی اور اٹارنی جنرل انور منصور ہر بار مختلف جواب دے کر عدالت کو پھر کنفیوز کر دیتے۔
اس کیس میں سب سے زیادہ سوالات چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس منصور علی شاہ نے کیے جبکہ بینچ کے تیسرے رُکن جسٹس مظہر خیل سرگوشیوں میں چیف جسٹس کے کان میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے لیکن بظاہر نہ اتنے سوالات کیے اور نہ ریمارکس دیے۔
کیس کی سماعت کے دوران ففتھ جنریشن وار فئیر کا بھی ذکر ہوا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے گِلہ کیا کہ آرمی ایکٹ کی کتاب کیا پڑھ لی ہمارے بارے میں پروپیگنڈا شروع ہو گیا، ہمیں ایجنٹ بنا دیا اور کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار فئیر ہے تو ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ آخر ہے کیا؟
سماعت کے دوران آئین کے آرٹیکل 243 اور آرمی ایکٹ 176اے پر بھی تفصیلی بحث ہوئی، جس کے تحت اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
تاہم عدالت نے قانونی سقم قرار دے کر جمعرات کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے مشروط کر دیا اور کہا کہ چھے ماہ میں واضح قانون بنایا جائے کہ دوبارہ تعیناتی یا توسیع کن بنیادوں پر ہو گی اور کتنی مدت کے لیے ہو گی، تاکہ آئندہ کے لیے طریقہ کار وضح ہو جائے۔
جمعرات کو حکومتی ٹیم نے عدالت میں بیان حلفی بھی جمع کرایا جس کے مطابق وہ چھ ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے مناسب قانون سازی کرنے کے پابند ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکومت سے سب کچھ کروا لیا اور خود کہا کہ عدالت کا نام بھی سمری سے نکال دیں، سب کچھ پارلیمان پر ڈال کر عدلیہ خود درمیان سے نکل گئی۔
انہوں نے کہا عدالت چونکہ پارلیمان کو ہدایات نہیں دے سکتی لہٰذا انہیں عدالت کی جانب سے پارلیمان کو تجاویز سمجھا جائے۔
انگریزی اخبار ڈان نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’اس معاملے کو جلدی میں مکمل نہ کیا جائے بلکہ اراکین پارلیمان کو مقررہ مدت کے اندر جتنا وقت درکار ہو دیا جائے تاکہ وہ ایسا قانون تیار کرسکیں جو تمام ریاستی اداروں اور نظام کی مضبوطی کا باعث بنے۔‘
اب ماہرین کے مطابق بال دوبارہ پارلیمان کی کورٹ میں ہے وہ اس معملے کو سنجیدگی سے حل کرتے ہیں یا نہیں لیکن بقول فروغ نسیم سیاسی جماعتیں اگر چھ ماہ میں قانون بہتر نہیں بناتی تو توہین عدالت کا امکان موجود رہے گا۔