طالبان کی تین سالہ قید سے رہائی پانے والے آسٹریلین پروفیسر کا کہنا ہے کہ امریکی سپیشل فورسز نے ان کو اور ان کے امریکی ساتھی پروفیسر کی بازیابی کے لیے کم از کم چھ آپریشن کیے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رہائی کے بعد پہلی بار سڈنی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے 50 سالہ ٹموتھی ویکس کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
تاہم طالبان کی قید میں گزرے ہوئے وقت سے ان پر گہرے اور ناقابل تصور اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان میں کھڑکیوں کے بغیر تاریک زندانوں میں گزارے ہوئے طویل وقت کی تفصیلات بتاتے ہوئے ویکس کا کہنا تھا ’تقریباً 1،200 دنوں بعد ہماری آزمائش اتنی ہی اچانک ختم ہوگئی جسے اچانک شروع ہوئی تھی۔‘
ویکس اور ان کے امریکی ساتھی کیون کنگ کو 20 نومبر کو طالبان، امریکہ، آسٹریلین اور افغان حکومتوں کے مابین معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابل کی ’امریکین یونیورسٹی‘ میں خدمات سرانجام دینے والے دونوں پروفیسروں کو فوجی وردی میں ملبوس مسلح افراد نے اگست 2016 میں اُس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ لیکچر کے بعد یونیورسٹی سے گھر لوٹ رہے تھے۔
ویکس نے مزید کہا: ’میں اپنے جذبات بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس واقعے نے مجھے کس طرح یکسر تبدیل کردیا۔‘
’بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میری موت قریب آ گئی ہو اور میں کبھی ان لوگوں کو نہیں دیکھوں گا جن سے میں بے حد پیار کرتا ہوں۔‘
’لیکن خدا کی مرضی سے میں واپس لوٹ آیا ہوں، میں زندہ اور سلامت ہوں۔‘
انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے رواں برس اپریل میں وہ آدھی رات تقریباً دو بجے دھماکوں کی آواز سے بیدار ہوئے اور اس کے فوری بعد طالبان انہیں نیچے سرنگوں میں لے گئے تھے۔
اس وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ حملہ دولت اسلامی سے وابستہ مقامی گروپ نے کیا ہے، تاہم مجھے اب یقین ہے کہ یہ امریکی سپیشل فورس تھی جو ہمیں چھڑانے کے لیے آپریشن کر رہی تھی۔
’جب ہم سرنگوں میں داخل ہوئے تو ہم صرف ایک یا دو میٹر زیر زمین گہرائی میں تھے اور اس وقت اچانک سامنے والے دروازے کے قریب ایک زور دار دھماکہ ہوا۔
انہوں نے کہا: ’ہمارے گارڈز اوپر چلے گئے جو مشین گن سے گولیاں برسا رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے دروازے کے بالکل باہر ہی امریکی فورس کے اہلکار موجود تھے۔ میرے خیال میں انہوں نے ہمیں چھڑانے کے لیے چھ بار کوششیں کی تھیں اور کئی بار تو ہم اپنی رہائی سے محض چند گھنٹوں کی دوری پر تھے۔‘