جب خلیجی ممالک میں تیل نہ تھا تب لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش موتی تھے۔ خطے میں تیل کی دولت موتی کی تجارت پر حاوی ہو گئی مگر عبداللہ السویدی کے خاندان کا ذریعہ معاش موتی ہی رہے۔
متحدہ عرب امارات میں موتی پیدا کرنے والا واحد کمرشل فارم السویدی کی ملکیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میری پرورش میرے دادا نے کی جو موتی کے لیے غوطہ خوری کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے موتی کے لیے غوطہ خوری سکھائی۔‘
’میں بہت سوال کرتا تھا اور مہم جوئی کی کہانیاں سنتا تھا جنہوں نے میرے خیالات پر اثر ڈالا۔‘
فارم کی سیپیوں سے نکلنے والا موتی خوبصورتی کی بنیاد پر دو سو سے 50 ہزار اماراتی درہم میں فروخت ہوتا ہے۔ نفع نقصان سے قطع نظر ہو کر السویدی کی خواہش ہے کہ خلیجی خطہ موتی کی تجارت میں اپنا مقام بحال کرے۔
ان کے بقول ’بہت افسوس کی بات ہے کہ وہ قومیں دنیا میں سب سے زیادہ موتی پیدا کر رہی ہیں جو 1906 میں وجود بھی نہیں رکھتی تھیں۔ متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ریاستیں اس تجارت میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہیں۔‘