وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر برائے قانون، موسمیاتی تبدیلی، ماحول و ساحلی ترقی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں 162 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان تو کیا، مگر دس ماہ گزرنے کے باجود 162 ارب روپے تو دور 162 روپے بھی خرچ نہیں کیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ترجمان حکومت سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وفاقی حکومت پر صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے بتایا: ’اس کی ایک مثال عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں بیٹھ کر حیدرآباد کی ایک یونیورسٹی کا افتتاح کرنا ہے، جب کہ یونیورسٹی بنانا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ اگر وفاقی حکومت یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے تو بنائے مگر صوبائی حکومت کے ساتھ بناتی تو بہتر کام ہوتا، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس یونیورسٹی کا افتتاح کیا گیا، اس کا چارٹر بھی منظور نہیں ہوسکا اور پی ایس ڈی پی میں اس یونیورسٹی کے لیے کوئی بجٹ بھی نہیں رکھا گیا۔ ‘
مرتضیٰ وہاب کے مطابق: ’ٹرانسپورٹ ایک خالص صوبائی سبجیکٹ ہے مگر اس کے باجود وفاقی حکومت نے کے آئی ڈی سی نامی ایک کمپنی بناکر اسے بی آر ٹی کا منصوبہ مکمل کرنے کا ٹاسک دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 16-2015 میں مکمل ہونے والا بی آر ٹی کا منصوبہ 2019 میں بھی مکمل نہ ہوسکا۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو جو وسائل دیے جاتے ہیں، وہ بھی وقت پر جاری نہیں کیے جاتے، نہ ہی این ایف سی کے تحت وفاقی بجٹ سے صوبائی حکومت کو ملنے والی رقم دی جاتی ہے۔ ’پچھلے 15 ماہ سے ہمیں بجٹ اس طرح نہیں دیا جا رہا جس طرح دینا چاہیے۔ ہمیں اپنے ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا پڑتا ہے، جس سے صوبے میں ترقیاتی کام متاثر ہوتا ہے۔ ہم یہ گلے شکوے وزیراعظم پاکستان سے کرتے ہیں، لیکن وہ وزیراعلیٰ سندھ کی بات سننے کو تیار نہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ پچھلے 15 ماہ میں وفاقی حکومت کو مختلف معاملات پر آٹھ یا نو خط لکھ چکے ہیں، مگر اب تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرتضیٰ وہاب کے مطابق: ’آئینِ پاکستان کے مطابق سال میں کم سے کم چار بار کونسل آف کامن انٹرسٹ یعنی سی سی آئی کا اجلاس بلانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اہم معاملات پر بحث کرکے انہیں حل کیا جائے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آخری بار 21 نومبر 2018 کو سی سی آئی کا اجلاس بلایا تھا اور اس کے بعد کوئی اجلاس نہیں ہوسکا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’بجلی، پانی اور گیس سمیت کئی معاملات میں وفاق ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ آئین کہتا ہے کہ جس صوبے سے گیس نکلے اس کو ترجیح دی جائے گی۔ سندھ سے پاکستان کی 70 فیصد گیس نکلتی ہے مگر اس کے باجود اس صوبے کو گیس کے استعمال میں ترجیح نہیں دی جاتی۔‘
سندھ کے کون سے بڑے مسائل ہیں، جنہیں وہ سی سی آئی میں لے جانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم سندھ میں گیس کے مسئلے اور وفاق کی جانب سے گذشتہ دنوں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ختم کیے جانے کے معاملے کو بھی سی سی آئی میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی شہر کے لیے 650 ایم جی ڈی اضافی پانی کی درخواست بھی حل نہیں کی گئی۔ ’الیکشن کے بعد ہمیں خوشی ہوئی کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے کامیاب ہونے والے عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد کراچی کے پانی کے مسئلے کو حل کریں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘
انہوں نے وفاقی حکومت سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان یا وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت یا وزیر اعلیٰ سندھ کو اکثر تقریبات میں بھی نہیں بلایا جاتا۔
ان کا کہنا تھا: ’انڈس ہائے وے پر واقع وزیر اعلیٰ سندھ کے آبائی شہر کے نزدیک سڑک کے ایک حصے میں اکثر حادثات ہوتے ہیں، جس کو ٹھیک کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے اڑھائی سال پہلے سات ارب روپے وفاقی حکومت کو دیے، جب کہ آدھے پیسے وفاق نے دینے تھے، مگر وہ سڑک ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی۔ وفاقی وزیر مواصلات جب بھی کراچی آتے ہیں تو وہ وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات گوارا بھی نہیں کرتے۔‘
گورنر سندھ کی جانب سے صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت پر بات کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا: ’آئین پاکستان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صوبائی معاملات سندھ حکومت اور کابینہ چلائے گی نہ کہ گورنر سندھ، اس کے باوجود وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر کسی کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔