محکمے کے مطابق اِس وقت پشاور پاکستان میں فضائی آلودگی کے لحاظ سے پہلے نمبر جب کہ پاکستان اس حوالے سے دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈائریکٹوریٹ نے حال ہی میں فضائی معیار چیک کرنے کے لیے ایسے آلات بنائے ہیں جو فضا میں موجود زہریلی گیسوں اور ذرات کی نشاندہی کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان آلات نے جو نتائج فراہم کیے ہیں وہ نہایت تشویش ناک ہیں۔
انہوں نے کہا فضائی آلودگی سے انسانی جانوں کو خطرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نتائج حاصل کرنے کے ساتھ ہی اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھانے پر کام تیز کر دیا ہے۔
’اقدامات تب ہی اٹھائے جا سکتے ہیں جب ڈیٹا ہاتھ آتا ہے۔ ہم نے جب ان آلات سے پشاور کی فضا چیک کی تو وہ نہایت آلودہ تھی۔ نتیجتاً ہم نے حل نکالنے پر فوری توجہ دی۔ اب ہمارا منصوبہ ہے کہ ہم ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے)، واٹر اینڈ سینیٹیشن پروگرام، ضلعی حکومت، لوکل گورنمنٹ اور ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک باڈی بنا کر ان سے مدد لیں۔ ساتھ ہی طلبا اور معاشرے کے دیگر کارآمد افراد کو آن بورڈ لیں گے۔‘
انھوں نے بتایا فضائی آلودگی ناپنے والے آلات کو پشاور کے آٹھ مختلف مقامات پر لگایا گیا ہے، جب کہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی یہ آلات نصب کروانے کے لیے انھوں نے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کی ہے۔
ان آلات کی تعداد اور معیار سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ رواں سال فروری میں صرف ایک ڈیوائس لگائی گئی تھی لیکن غیر جانب دار ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ان کی تعداد بڑھائی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ان آلات کو حکومتی سطح پر کافی سراہا جا رہا ہے لیکن شعبہِ ماحولیاتی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ خان نے خدشہ ظاہر کیا گو کہ حکومت کی یہ کوشش قابل ستائش ہے لیکن ان آلات سے ملنے والے ڈیٹا کے غیر یقینی ہونے کا امکان موجود ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ ان آلات کو ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت پشاور ہر قسم کی آلودگی میں پہلے نمبر پر ہے لیکن فضائی آلودگی کی سطح جاننے والے آلات بنانا ایک پیچیدہ کام ہے۔ اس میں پانچ قسم کی زہریلی گیسوں کا پتہ چلانے کے لیے پانچ قسم کے سنسرز لگائے جاتے ہیں، جنہیں بنانے والی ٹیکنالوجی پاکستان میں نہیں۔ بیرونی ممالک میں ان کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہوتی ہے۔ یہاں زیادہ تر طالب علم ایمونیا یا ایچ ٹو ایس پر لیب میں کام کر لیتے ہیں، جو کہ زہریلی گیسوں اور ذرات کی پانچ بنیادی قسموں کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی نہیں۔‘
پروفیسر حزب اللہ نے مزید کہا کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں فضائی معیار کرنے والے سینسرز موجود ہوتے ہیں، بلکہ عوام کو خبردار رکھنے کے لیے ان آلات سے متصل بڑی سکرین بھی شاہراہوں پر لگی ہوتی ہیں۔
’اگر حکومت واقعی فضائی آلودگی کے موضوع پر سنجیدہ ہے تو ان آلات کے لیے باہر سے سینسرز منگوائیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے سی این جی کا استعمال شروع کیا جائے۔ گو سی این جی بھی ماحول کو آلودہ کرتی ہے لیکن پھر بھی اس سے قدرے کم نقصان ہوتا ہے۔ البتہ الیکٹرک گاڑیوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں میں کٹیلٹک کنورٹرز لگانا لازمی قرار دے دیا جائے۔‘
کٹیلٹک کنورٹرز گاڑیوں کے زہریلے گیسوں کو ماحول دوست گیسوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ایجاد کافی پرانی ہو چکی ہے اور ان کے ہاں تمام قسم کی گاڑیوں میں یہ کنورٹرز لگانا لازمی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد خان نے پروفیسر حزب اللہ کے خدشات پر بتایا کہ پشاور کے آٹھ مختلف مقامات میں ہر ایک ڈیوائس میں چار، چار سینسرز لگائے گئے ہیں۔
’ان میں ایک سینسر خطرناک ترین ذرات پی ایم 10 اور پی ایم 5-2 کی موجودگی ریکارڈ کرنے کے لیے لگوایا گیا ہے، جب کہ باقی ایمونیا، سی او ٹو اور اوزون کے لیے ہیں۔ یہ سنسرز ہم نے لاہور سے منگوا کر یہاں ترتیب دیے اور ان کی رینج ایک سے دس تک ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’چونکہ یہ آلات میں نے اور ضلع کرک کی خوشحال یونیورسٹی کے دو طالب علموں ساجد اسلام، صفدر فہیم اور ان کے استاد ڈاکٹر زبیر نے مل کر بنائے ہیں لہذا ہم نے سینسرز کی درستگی و قطعی نتائج کی ہر حوالے سے تسلی بخش جانچ پڑتال کی ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو شک ہے کہ یہ نتائج غلط ہیں تو اس کا پھر بھی فائدہ یہ ہوا کہ حکومت ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔‘
ڈاکٹر خالد خان نے بتایا کہ ان سینسرز سے حاصل کردہ نتائج بہت جلد ایک موبائل ایپ کے ذریعے دیکھے جا سکیں گے، تاہم یہ ایپ اس وقت ٹیسٹنگ کے آخری مراحل میں ہے۔
فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے بہترین معیار کا ایندھن درآمد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سالوں میں ملک میں یورو-ٹو کی جگہ یورو- فور تیل کا استعمال ہوگا اور اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے والے کارخانوں کو بند کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جن گاڑیوں میں یورو- فور ٹیکنالوجی کا تیل استعمال ہوتا ہے ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر کی کم مقدار فضا میں خارج ہوتی ہے۔ یورو- فور ٹیکنالوجی کا ایندھن سو فیصد جل جاتا ہے اور زہریلے مادے کم مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔