جس طرح کسی معالج کے لیے صرف یہ جاننا کافی نہیں ہوتا کہ مریض کو بخار ہے بلکہ وہ بخار کی پیمائش (درجہ حرارت) اور اس کے بعد اس کی وجوہات جاننے کے لیے کھوج کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے جسم کے درجہ حرارت سے لے کر خون، تھوک یا دیگر رطوبتوں کے تجزیئے کرتا ہے۔ ان کی روشنی میں ادویات اور کارگر علاج (ادویات) تجویز کر دی جاتی ہیں۔
بالکل اسی طرح ہمارے گردو پیش میں ماحول بھی بیمار ہے۔ انواع و اقسام کی آلودگیاں اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ کئی علاقوں میں سانس لینے کے لیے ہوا سے لے کر سینکڑوں فٹ زیر زمین پانی کے ذخائر تک بھی انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں رہے۔ یہ خطرناک صورتحال خاطر خواہ عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ کسی جاندار کے علاج معالجے کی طرح ہوا میں موجود آلودگی کے بارے میں صرف ’سرسری علم (اندازہ)‘ ہونا ہی کافی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کی مقدار جاننے اور اسباب کی اصلاح پر توجہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا کئے بغیر ’فضائی آلودگی‘ پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔
عالمی پیمانہ ’ائر کوالٹی انڈکس (Air Quality Index AQI) کے تحت ’صفر سے پانچ سو ڈگری تک ’درجہ آلودگی‘ معلوم کر کے فضائی آلودگی کا تناسب معلوم کیا جاتا ہے۔ جب کسی مقام پر ہوا کا ’AQI‘ 201 سے 300 کے درمیان ہو تو اسے انسانی صحت کے لیے انتہائی ناقص (Very Unhealthy) قرار دیا جاتا ہے اور ایسی صورت میں حکومت ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کا اعلان کرتی ہے تاکہ عوام کھلی ہوا میں سانس لینے کی بجائے ایک خاص کپڑے سے بنے ماسک (mask) کا استعمال کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح فضاءمیں دھاتوں کی مقدار جاننے کے لیے ’پارٹیکیولیٹ میٹر (Particulate Matter)‘ جسے عرف عام میں ’PM‘ کہا جاتا ہے کا استعمال ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ہوا میں دھاتوں کے ان باریک ذروں کی تعداد کتنی ہے جو باآسانی سانس کے ذریعے جانداروں کے پھیپھڑوں میں جمع ہو کر خطرناک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں حکومتیں عوام کو ’پینے کے صاف پانی‘ جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنا فرض سمجھتی ہیں‘ وہیں ’ہوا کے معیار‘ پر بھی مستقل نظر رکھنے کے علاوہ وقت کے ساتھ صنعتوں‘ موٹر گاڑیوں یا دیگر وجوہات کی بناء پر وقتاً فوقتاً‘ پیدا ہونے آلودگی اور اس کے اسباب کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر آلات (ٹیکنالوجی) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ خواندگی کی بلند شرح رکھنے والے ممالک میں ’صاف ہوا‘ کی ضرورت و اہمیت کا احساس کر لیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ’تحفظ ماحول کا ذکر بطور فیشن‘ نہیں بلکہ ایک شعور و بنیادی حق کے طور پر ملتا ہے۔ رہائش گاہوں اور دفاتر میں بھی ہوا کو صاف کرنے والے آلات نصب کئے جاتے ہیں۔ ایسے آلات زیادہ مہنگے نہیں ہوتے اور پاکستان میں بھی چند ہزار روپے کے عوض دستیاب ہیں لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ خواص اور عوام کی اکثریت یہ سمجھتے ہیں کہ ماحول کا تحفظ صرف اور صرف ان مغربی معاشروں کا مسئلہ ہے‘ جو مالی طور پر خوشحال (آسودہ) ہیں۔
مسئلہ تعلیم و شعور کے سطحی ہونے کا بھی ہے۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی برقی آلہ ہوتا ہے لیکن اس کی خریداری کرتے وقت ماحول دوستی کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ حال ہی میں کم بجلی استعمال کرنے والے ’انورٹر‘ ائرکنڈیشنز اور فریج کی ایسی مصنوعات پاکستان میں بھی فروخت کے لیے پیش کی گئیں ہیں‘ جو ہوا کی تطہیر کے ساتھ مضر جرثوموں (بیکٹیریا) کی افزائش روکتی ہیں لیکن خریدار نئی ٹیکنالوجی کی بجائے پرانے آلات خریدنا پسند کرتے ہیں‘ جو ماحول دوستی کے پیمانے پورا نہیں اترتے۔
بہرحال تعلیم اور شعور کی بنیاد پر احساس و ذمہ داری عام ہونی چاہئے۔ اب مرحلہ (مشکل) یہ درپیش ہے کہ آلودہ ہوا کو صاف کیسے کیا جائے اور فضائی آلودگی کو مزید بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟ فیصلہ سازوں کو صرف بیانات کی حد تک نہیں بلکہ ماحول دوست حکمت عملیوں کے ذریعے شہری و دیہی علاقوں میں جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ کی تلفی‘ نکاسی آب کے نظام کی فعالیت اور شجرکاری جیسے عملی اقدامات سے اس ماحولیاتی تنوع (توازن) کو بحال کرنا ہوگا ’جو بگڑ چکا ہے‘ جو بگڑ رہا ہے اور اگر اس مرحلے پر بھی ایسا نہیں کیا گیا تو دیگر تمام اقدامات نمائشی اور ناکافی رہیں گے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ’پشاور کی ہوا میں پائی جانے والی آلودگی ناپنے کے لیے آلات نصب کئے جائیں گے‘ جن سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔‘ یہ اعلان عمومی محکمانہ سطح پر نہیں کیا گیا بلکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی طرف سے سامنے آیا ہے‘ جنہوں نے ماحولیاتی تحفظ کی تحریک چلانے والے احمد رافع عالم سے پشاور میں ملاقات کے دوران کہا کہ ’کرہ ارض کے درجہ حرارت میں تبدیلی کے اثرات اپنی جگہ لیکن پشاور میں فضائی آلودگی انہی دو بنیادی محرکات کی وجہ سے ہے‘ جو ’صحت عامہ (پبلک ہیلتھ)‘ کے لیے خطرہ ہیں۔ اس ملاقات میں وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا بھی موجود تھے جنہوں نے تحفظ ماحول کے صوبائی ادارے (پروانشیل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی) کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت فضائی آلودگی کی شرح کم کرنے کے لیے الگ سے ’ٹھوس اقدامات‘ کئے جا رہے ہیں۔‘ لیکن یہ ٹھوس کیا ہیں اور کہاں ہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے! قواعد موجود ہیں لیکن تحفظ ماحول کے لیے ان صوبائی و قومی قواعد اور قوانین پر کماحقہ عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
پشاور کے مضافاتی علاقوں کا ذکر ہی کیا اندرون شہر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ پرانے ماڈل کی گاڑیاں کھلے عام استعمال ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ خستہ حال گاڑیوں پر مقررہ وزن سے زیادہ سازوسامان لادنے (اوور لوڈنگ) کی وجہ سے بھی ہوا میں کاربن کی مقدار خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ استعمال شدہ موبائل آئل صاف کر کے قابل استعمال بنانے کی فیکٹریاں بھی پشاور ہی میں پائی جاتی ہیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ پشاور کا چوک یادگار اور اس سے ملحق تجارتی و رہائشی مراکز میں فضائی آلودگی انسانوں کے لیے قابل برداشت حدوں سے زیادہ ہے لیکن ان سبھی علاقوں پر ٹریفک کا دباو بدستور موجود ہے جبکہ ترقیاتی کاموں میں ماحولیاتی آلودگی کو خاطر میں نہ لانے کے منفی اثرات بھی پشاور کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تحفظ ماحول کی جس قدر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اسی قدر عوام و خواص کو بھی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں تعاون کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے لیکن ہر کام حکومتی اداروں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر بالخصوص پشاور کے گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے قربانی کے جانوروں کی الائشیں اور باقی ماندہ چارہ تلف کرنے میں ان ہدایات پر عمل کریں جو حکومتی ادارے جاری کرتے ہیں۔ مضافاتی دیہی علاقوں میں اندرون شہر کی نسبت گندگی اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا نظام سست ہوتا ہے جہاں اپنی مدد آپ کے تحت الائشیں و دیگر گندگی دفن کر کے صرف حکومت کی مدد ہی نہیں بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت و تندرستی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ تحفظ ماحول ہی طریق دانشمندی اور اسی میں انسانی حیات کا راز پوشیدہ ہے۔