گلوکار اور اداکار علی ظفر نے میشا شفیع کی جانب سے ان پر لگائے گئے ہراسانی کے الزامات کے حوالے سے کہا ہے کہ میشا نے کئی مرتبہ نجی طور پر معافی مانگنے کے پیغامات بھیجے، لیکن انہوں نے نجی طور پر معافی قبول کرنے سے انکار کردیا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ فتح بالآخر سچ کی ہوتی ہے اور جھوٹ ہار جاتا ہے چاہے اس میں وقت لگے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں علی ظفر نے اس معاملے پر ہونے والی قانونی اور عدالتی کارروائی سے متعلق تفصیلی بات کی۔
نو دسمبر کو ہونے والی عدالتی سماعت کے بارے میں علی ظفر نے بتایا کہ ’میشا شفیع پر پہلے میں نے کیس کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے مجھ پر جوابی کیس کیا، لیکن لوگوں کو کچھ کنفیوژن رہتی ہے۔ ان (میشا شفیع) کے سارے کیسز خارج ہوچکے ہیں اور وہ میں جیت چکا ہوں۔‘
علی ظفر نے کہا کہ ’آج کل کے دور میں لوگوں کو قوانین اور اپنے حقوق معلوم ہونے چاہییں۔ ہر انسان کا پیدائشی حق اس کی عزتِ نفس ہے جو کوئی اس سے چھین نہیں سکتا، لہذا اگر کوئی اس پر حملہ کرے تو آپ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں جاکر شکایت کرسکتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ کر چلا جائے اور آپ کہیں کہ اچھا جی ٹھیک ہے۔ دوسرے کو کسی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑتا ہے۔‘
علی ظفر نے واضح کیا کہ یہ ان کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس ہے، جس میں انہوں نے 100 کروڑ کا دعویٰ کیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے بہت سے معاہدے ختم ہوئے، فلم ’طیفا اِن ٹربل‘ کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی اور ان تمام نقصانات کی تفصیلات وہ عدالت میں دے چکے ہیں۔
علی ظفر نے وضاحت کی کہ 19 ماہ کی محنت کے بعد ان کی قانونی ٹیم آخر کار میشا شفیع کو عدالت لانے میں کامیاب ہوگئی اور اب انہیں جو بھی حقائق ہیں ان کی بنیاد پر ہرجانہ بھرنا پڑے گا۔
کیسز کون کون سے تھے اور کیا فیصلے آئے؟
علی ظفر نے بتایا کہ ’تین کیسز میں ان کے حق میں جو فیصلہ آیا ہے ان میں پہلا کیس میشا شفیع نے محتسب کے پاس دائر کیا تھا، جس کے مطابق جیم روم بھی ایک ورک پلیس یا کام کرنے کی جگہ ہے۔ لیکن جیم روم میں جتنے بھی گواہ تھے، جن میں بہت سے نامور موسیقار بھی تھے، ان سب نے عدالت میں جاکر میرے حق میں گواہی دی کہ یہ جھوٹ ہے، ہم وہاں تھے اور ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘
علی ظفر کے مطابق: ’یہ تو کیس ہی نہیں چلنے دینا چاہتے تھے، بار بار تاریخ لے لیا کرتے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے بعد یہ گورنر کہ پاس اپیل میں گئے، لیکن وہاں سے بھی کیس خارج ہوا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی، وہاں سے بھی اپیل خارج کی گئی کیونکہ میں ان کو ملازمت دینے والا تھا ہی نہیں۔‘
علی ظفر نے کہا کہ اپنے حق کے لیے ہمیشہ لڑنا چاہیے کیونکہ ظلم سہنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں فلم ’طیفا اِن ٹربل‘ بنا رہا تھا تو وہ بہت بڑے بجٹ کی فلم تھی۔ میں نے یہ رسک بھی لیا کہ اسے عید کے علاوہ ریلیز کیا جائے۔ میں نے آج تک جتنے بھی پیسے کمائے تھے وہ سب لگا دیے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ سے یہ پیسے واپس آنا بہت مشکل ہوتے ہیں اس لیے باکس آفس کے ساتھ ساتھ ہمیں سپانسرز کی بہت ضرورت تھی، لیکن جب میرے ساتھ یہ ہوا تو وہ سارے سپانسرز پیچھے ہٹ گئے۔ میرا ایک بہت بڑا ملٹی نیشنل برانڈ کے ساتھ معاہدہ بھی تھا جو منسوخ ہوگیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی ظفر کے مطابق یہ سارا معاملہ ہی انہیں اس برانڈ سے نکالنے کے لیے ہوا جس میں وہ بظاہر تو کامیاب ہوگئے لیکن یہ کامیابی بہت تھوڑے وقت کے لیے ہوتی ہے۔
علی نے مزید بتایا کہ وہ اس سب کی تفصیلات بھی عدالت میں جمع کروا چکے ہیں کہ میشا شفیع انہیں (اس برانڈ سے) کیوں ہٹانا چاہتی تھیں، یہ سازش کیسے تیار کی گئی اور کون سے دوست احباب اس میں شامل تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں کئی مرتبہ میشا کی جانب سے معافی کے پیغامات بھی آئے کہ میں عوامی سطح پر نہیں مگر نجی طور پر معافی مانگ لیتی ہوں مگر میں نے کہا کہ ’نہیں عوامی سطح پر معافی ہونی چاہیے، جہاں آپ نے کہا ہے وہیں پر معافی بھی ہونی چاہیے۔‘
جب ان سے تفصیل پوچھی گئی تو علی ظفر نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’یہ پیغامات مجھ تک کیسے پہنچے آپ اس کی بہت زیادہ تفصیل میں جارہے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس سارے معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جو جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے والی اصل خواتین ہیں، اب ان کی آواز پر لوگوں کا یقین کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘
علی ظفر نے کہا: ’نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کہ کئی ممالک میں ایسا ہوتا ہے اور مردوں کو یہ سمجھنا ہوگا اور جاننا ہوگا، کیونکہ جب تک ہم مرد یہ نہیں سمجھیں گے تب تک کچھ نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ایک روشن خیال معاشرے میں انصاف اور برابری بہت ضروری ہوتی ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔ کسی بھی ایک کی وجہ سے یہ ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ سب ہی ایسے ہوتے ہیں۔‘
اس کیس کے اپنے گھرانے پر پڑنے والے اثرات پر ان کا کہنا تھا کہ ’اثرات تو پڑتے ہیں اور یہ بہت ہی نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ آپ کے بچے بھی ہوتے ہیں اور اتنے سالوں کی محنت کے بعد اچانک کچھ لوگ آپ کو ایک نظر سے دیکھنا شروع کر دیں اور پھر آپ کے خلاف ایک مہم چلائی جانے لگے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے اور جب ایک آزمائش میں وہ ڈالتا ہے تو اس سے نکل کر پھر وہ بہت کچھ دیتا ہے اور میں آج کل یہ محسوس کر رہا ہوں۔‘
علی ظفر نے اس سوال کہ اس معاملے کے بعد سے کیا کبھی ان کا میشا شفیع سے سامنا ہوا پر جواب دیا کہ ’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘
علی ظفر کی جانب سے کچھ دیگر لوگوں کو قانونی نوٹس بھجوانے کے بارے میں کہا گیا کہ ’جب ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ لگے ہوئے ہیں اور کچھ جعلی اکاؤنٹ بنا کر ہزاروں ٹویٹس کی گئیں، اس کے علاوہ کچھ دیگر افراد نے بھی یہ کیا تو پھر اسے ثابت بھی کرنا چاہیے۔ ایف آئی اے میں سائبر کرائم کا پورا ایک شعبہ قائم ہے۔ اب اگر وہ آپ کو بلائیں اور مہینوں گزر جائیں اور آپ نہ جائیں تو قانون تو سب کے لیے برابر ہے۔ ایف آئی اے پرچہ کاٹ کر کارروائی کرسکتا ہے اور جس کی سات سال سزا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سوشل میڈیا کے دور میں پیار اور محبت کی زبان بولنے کی ضرورت ہے۔ آپ جو بھی کہتے ہیں وہ آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘