ہاروے وینسٹن کے خلاف گذشتہ جنوری جنسی استحصال اور ریپ کے الزامات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے کے تین ماہ بعد ہالی وڈ کی خواتین گولڈن گلوبز میں سرخ قالین پر مکمل سیاہ لباس پہن کر شریک ہوئیں۔
جب سے ایوارڈ شو ہو رہے ہیں خواتین ان میں شریک رہی ہیں۔ وہ پاپارازی فوٹو گرافروں کے سامنے شوخ اور نفیس لباس پہن کر پوز دیتی آئی ہیں۔ ان کے شوخ و چنچل لباس لالا لینڈ یعنی امریکی خواب کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی دوران اپنے عام لباس میں انہیں دیکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہالی وڈ کی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ تھا لیکن کیا اس سے تھوڑا سا فرق بھی پڑا ہے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ایسا نہیں ہو سکا۔ سوموار کو 2020 کے گولڈن گلوب ایورڈز کی نامزدگیوں کا اعلان کیا گیا۔ خواتین نے مشترکہ طور پر اپنا سر اپنے سامنے رکھے میزوں پر مارا ہو گا کیونکہ سب سے اہم دونوں زمرے میں ایک بھی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا۔ ان میں بہترین ہدایات کار اور بہترین سکرین رائٹر شامل ہیں۔ جب کہ مردوں کی بنائی گئی فلموں نے تمام کیٹگریز میں بڑی تعداد میں نامزدگیاں حاصل کی ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سن 2000 سے ہی ہالی وڈ فارن پریس ایسوسی ایشن نے بہترین ہدایات کار کی کیٹگری میں صرف چار خواتین کو نامزد کیا ہے جب کہ ان کے مقابلے میں مردوں کا سمندر ہے جنہیں 100 نامزدگیاں دی گئیں۔ اکیڈمی کی 91 سالہ تاریخ میں صرف پانچ خواتین کو آسکر ایوارڈ ملا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواتین کی غیر حاضری کے بارے میں پروڈکشن ہاوسز کی جانب سے پہلے تو یہ کہا جاتا رہا کہ خواتین مصنفین اور ہدایات کاروں کی فلمیں قبول عام حاصل نہیں کر پاتیں۔
لیکن اس سال یہ بہانے نہیں چلیں گے۔ بہترین فلموں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ان دونوں کیٹگریز میں دبایا گیا۔ ان میں گریٹا گرویگ کی لٹل وومن، لورینے سکافریا کی ہسلرز، سیلین سکیما کی پورٹریٹ آف آ لیڈی آن فائر، میریلے ہیلر کی آ بیوٹی فل ڈے ان دی نیبرہڈ، کاسی لیمنز کی ہیریٹ اور الما ہیریل کی ہنی بوائے کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔
اس کے بجائے ایچ ایف پی اے نے اپنی ناقابل تردید عورت بیزاری کے تحت ایک ایسی فہرست پیش کی جس پر بہت حد تک پریشان کن اور مسائل کی شکار فلم جوکر نے قبضہ جما رکھا تھا۔ ایک درمیانے درجے کی پاپ کارن موری جو دماغی صحت کے بہانے مردانہ تشدد کو وجہ فراہم کرتی ہے۔
مارٹن سکورسیس کی تین گھنٹے چالیس منٹ طویل فلم دی آئرش مین اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ بہت عرصہ ہو گیا تھا کہ میں نے اتنی خودستائشی پر مبنی فلم دیکھی ہو جو کہ مکمل طور پر پھیکی ہو۔
ہالی وڈ کے بہت سے مرد اداکار سنیما کی پرہجوم دنیا میں خود کو بیڈ بوائے دکھانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ چھوڑ دیں اب یہ سب کچھ، میں اس معاملے میں اکیلی نہیں ہوں، اس فلم کو دیکھنے والے صرف 18 فی صد افراد ہی اس کو پورا دیکھ سکے ہیں۔ بلکہ فلم ختم ہونے سے پہلے ہی انہوں نے نیٹ فلیکس بند کر دیا۔
دوسری جانب جینیفر لوپیز کی ہسلرز نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس پر لاگت بھی کم آئی تھی۔ لیکن رکیں، کیا خواتین کے اہم کرداروں والی فلمیں نہ ہونے کی وجہ زیادہ ٹکٹیں فروخت نہ ہونے کی وجہ نہیں ہے؟
کیا آپ ہر سال مایوسیوں کی یہ کہانی سن پر بور نہیں ہو گئے؟ میں تو ہو چکی ہوں۔ تو میں یہی مشورہ دوں گی کہ خواتین مکمل طور پر گولڈن گلوبز کا بائیکاٹ کریں۔
اتنے سالوں سے اس بارے میں آواز اٹھانے کے بعد (گذشتہ سال نتالی پورٹ مین نے ’ تمام مردانہ نامزدگیوں‘ کا اعلان کیا تھا جب وہ گولڈن گلوبز دینے کے لیے وہاں موجود تھیں)، سیاہ لباس مظاہرین، گروپس، مہم اور کوششوں کے بعد بھی فلم انڈسٹری اس منظم صنفی تعصب کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں ہے۔ گذشتہ سال بہترین ڈرامہ، بہترین میوزیکل کامیڈی، بہترین ہدایت کار، بہترین سکرین پلے اور بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے تمام ایوارڈز مردوں کو دیے گئے۔
خواتین کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے پر غم و غصے کے باوجود گولڈن گلوبز نے اپنی روش بدلنے سے انکار کیا ہے۔ دکھانے کے لیے صرف چند نامزدیاں کی جاتی ہیں جبکہ حقیقی امیدواروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ہاں رواں سال خواتین کو نامزد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہم آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ یہ ٹی وی پر خواتین کے لیے ایک بہترین سال تھا۔ چھوٹی سکرین پر خواتین کو کم جگہ ملتی ہے لیکن وہ ہماری محنت کو بخوشی قبول کرتی ہیں۔ کلنگ ایو، فلی بیگ، بگ لٹل لائز، ان بلیو ایبل، دا کراؤن ، دا مارننگ شو سب کو ہی نامزد کیا گیا لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
الما ہیریل نے اپنی ٹویٹ میں ان جذبات کا اظہار بہترین الفاظ میں کیا ہے کہ ’ میں اس سال زندگی میں پہلی بار اندر تھی۔ یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں اور نہ ہی ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ ایوارڈ کے نظام میں انصاف مت تلاش کریں۔ ہم ایک نئی دنیا تخلیق کر رہے ہیں۔‘
خواتین کو ایسا ہی کرنا چاہیے اور ہمارے مرد حامیوں کو بھی یہی کرنا ہو گا۔ خواتین کی صلاحیتوں کو جھٹلانے والے اس مردانہ ادارے سے رخ موڑنا اور اس حوالے سے مزید سخت موقف رکھنے والے اداکاروں کا سامنے آنا ہی اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے۔
کیا ریڈ کارپٹ پر ایک جیسے سیاہ لباس پہنے مرد اداکاروں میں کوئی پاپا رازی دلچسپی لے گا؟ خواتین کی شرکت کے بغیر یہ تقریب کب تک جاری رہ سکے گی؟ کتنے لوگ اسے دیکھنا پسند کریں گے؟ ہم پہلے ہی جانتے ہیں گلوبز کو دیکھنے والے افراد کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اگر خواتین اس میں شرکت سے انکار کر دیں تو یہ تعداد، اشتہاروں کی آمدن اور بھی کم ہو جائے گی۔
نوح بومباچ کی غیر معمولی میریج سٹوری نامزدگیوں کی فہرست میں چھائی ہوئی ہے لیکن ایچ ایف پی اے نے شاید سکرپٹ کے سب سے شاندار حصے کو دیکھا ہی نہیں جب طلاق یافتہ وکیل نورا صنفی حوالے سے خواتین اور مرد والدین کے بارے میں دہرے معیارات کو بے نقاب کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ ہم ایک باپ کو اپنی تمام غلطیوں سمیت قبول کر لیتے ہیں لیکن لوگ ایسی ہی غلطیوں کو ماؤں میں قبول نہیں کرتے۔ آپ کو ہر حال میں پرفیکٹ ہونا ہے۔ جب کہ والد جتنا بھی برا ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ خواتین کو ہمیشہ مختلف اور بہترین معیار میں ہی پرکھا جائے گا۔ یہ بہت غلط ہے لیکن ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
لیکن اس کو ایسے رہنے نہیں دیا جا سکتا۔ گولڈن گلوبز اور باقی انڈسٹری بھی اس بات سے آگاہ ہے۔ یہ آسکر پر نقب زنی کے مترادف ہے۔ بس بہت ہو چکا۔ ہالی ود کی خواتین بہت اچھا اور بہترین قسم کا مواد تیار کر رہی ہیں اور اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر ایوارڈ تقریبات میں خواتین کو نامزد نہیں کیا جائے گا اور انہیں سٹیج پر درست مقام نہیں ملے گا تو خواتین کو اپنا قیمتی وقت ایسی چیزوں کی حمایت میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔