تین جمہوری حکومتوں سے پاناما پیپرز تک

انڈپینڈنٹ اردو کی سیریز ’دہائی کے دس‘ میں اب پیش خدمت ہیں گذشتہ دہائی کے دس ایسے اہم ترین واقعات جنہوں نے ملکی سیاست کو متاثر کیا۔

تصاویر: اے ایف پی/سکرین گریب

2010 کی دہائی کا اختتام ہونے کو ہے۔ ان دس برس میں پاکستانی سیاست کافی گرم رہی اور اس دوران دو عام انتخابات دیکھنے کو ملے جب کہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔

انڈپینڈنٹ اردو کی سیریز ’دہائی کے دس‘ میں ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس دہائی کے دس نہایت اہم واقعات جنہوں نے ملکی سیاست کو متاثر کیا۔

10۔  18 ویں ترمیم

2010 کی دہائی کا آغاز 18ویں آئینی ترمیم سے ہوا۔ اپریل 2010 میں ہونے والی 18ویں ترمیم کے خلاف ایک بھی رکن قومی اسمبلی نے ووٹ نہیں دیا۔ اس ترمیم میں چند اہم آئینی شقیں شامل کی گئی تھیں جن کے تحت صدر نے پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار وزیراعظم کو واپس کر دیا۔ اس کے علاوہ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمان سے مارشل لا کی توثیق کو بھی ناجائز قرار دیا گیا۔

اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوا جب کہ اس میں ساتویں قومی فنانس کمیشن ایوارڈ کو بھی حصہ بنایا گیا جس سے وسائل کی تقسیم میں وفاق کے مقابلے میں صوبوں کو زیادہ وسائل ملے۔

تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد 18ویں ترمیم کا اب بھی پاکستانی سیاست میں اہم کردار ہے۔ موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے وزرا 18ویں ترمیم پر نظرثانی کی بات کر چکے ہیں جب کہ اخباری رپورٹوں کے مطابق موجودہ آرمی چیف نے بھی 18ویں ترمیم کی افادیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

9۔ سلمان تاثیر کا قتل اور ختم نبوت کے معاملے پر سیاست

جنوری 2011 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی محافظ ممتاز قادری نے ہلاک کر دیا۔ بظاہر تو یہ ایک قتل کا واقعہ ہے مگر اس واقعے کا بغور جائزہ لیں تو 2010 کی دہائی کی سیاست میں اس واقعے کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔

سلمان تاثیر کی ہلاکت کے بعد کچھ حلقوں نے ممتار قادری کو ہیرو کا درجہ دیا اور ان کی پھانسی کے بعد ایک بہت بڑے جنازے کا اہتمام کیا گیا۔ جنازے کے بعد کچھ مذہبی رہنماؤں نے اسلام آباد کا رخ کرتے ہوئے ڈی چوک پر دھرنا دیا۔

اس واقعے نے تحریک لبیک پاکستان کو جنم دیا اور بعد ازاں پاکستانی سیاست میں ختم نبوت کے معاملے نے ایک بار پھر اہمیت اختیار کر لی۔ 2017 میں انتخابی اصلاحات کے باعث انتخابی فارم میں ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم پر تحریک لبیک متحرک ہوئی اور ایک بار پھر دھرنا دیا۔

تحریک لبیک کے اس دھرنے کے باعث اس وقت کے وفاقی وزیر برائے قانون کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ ن لیگ کے ایک اور وزیر احسن اقبال پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا جس کے پیچھے محرکات مبینہ طور پر ختم نبوت والی تحریک ہی کے تھے۔

تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئی۔

8۔ دھرنا سیاست

2012 کے آخر میں طاہر القادری نے ’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘ کے نعرے سے پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ طاہر القادری کا دھرنا کچھ خاطر خواہ کامیابی تو نہ حاصل کر سکا مگر اس دھرنے نے ملک میں دھرنے کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی روایت کو جنم دیا۔

طاہر القادری کے دھرنے کے بعد 2014 میں پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ تحریک انصاف کا دھرنا 126 دن چلا۔ تحریک انصاف نے نومبر 2016 میں ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا مگر اس وقت سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کا نوٹس لے لیا جس کے بعد دھرنا موخر کر دیا گیا۔

مولانا خادم رضوی کی تحریک لبیک پاکستان نے بھی اسلام آباد میں دو بار دھرنا دیا۔ تاہم تیسرے دھرنے کی تیاری سے پہلے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی دہائی کے آخر (2019) میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف اسلام آباد آزادی مارچ کیا۔

7۔ آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع

جولائی 2010 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کا اعلان کیا۔ بظاہر تو یہ توسیع تین سال کے لیے تھی مگر اس فیصلے کے باعث جنرل کیانی کے بعد آنے والے آرمی چیفس کی مدت ملازمت پر بھی بحث ہوتی رہی۔

جب جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا تو ’جانے کی باتیں جانے دو‘ کے بینرز ملک کے مختلف شہروں میں نظر آئے۔ اگرچہ پاکستان فوج کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ جنرل راحیل شریف توسیع کے خواہاں نہیں، مگر پھر بھی جب تک نئے آرمی چیف کا اعلان نہ ہوا، تب تک یہ بحث چلتی رہی کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دی جائے گی یا نہیں۔

ایسا ہی کچھ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے دیکھنے کو ملا۔ موجودہ حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینا چاہی مگر سپریم کورٹ نے اس توسیع کو تین سال کی بجائے چھ مہینے کرتے ہوئے حکومت کو طریقہ کار وضع کرنے کا حکم جاری کیا۔

یوں 2010 کی دہائی میں ہر تین سال بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت پر بھرپور چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں۔

6۔ نقیب اللہ محسود کا قتل

جنوری 2018 میں کراچی کے رہائشی نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کی خبر عام ہوئی تو اس وقت کسی نے سوچا نہیں تھا کہ نقیب اللہ محسود، جن کا نام پہلے کبھی قومی سطح پر نہیں لیا گیا، ان کے قتل کی وجہ سے ایک نئی سیاسی تحریک جنم لے گی۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اسلام آباد میں دھرنا ہوا جس میں محسود قبائل کے افراد نے شرکت کی مگر اس دھرنے کی وجہ سے پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک بھی سامنے آئی۔ اس تحریک کی سربراہی منظور پشتین نے کی۔

پشتونوں کے حقوق کے لیے قائم کی گئی اس تحریک نے ریاست کو بظاہر کئی سیاسی چیلنجز سے درکنار کیا۔ 2018 کے انتخابات میں پشتون تحفظ موومنٹ سے وابستہ دو اراکین نے بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی نشستیں بھی حاصل کیں۔

5۔ الطاف حسین کا زوال

اگست 2016 کی ایک تقریر متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی سیاست کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوئی۔ الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں نے ٹی وی چینلوں پر حملہ کیا جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان میں موجود قیادت نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔

اس تقریر سے پہلے ہی الطاف حسین کی تقاریر میڈیا پر نشر کرنے پر لاہور کی ایک عدالت نے پابندی عائد کر رکھی تھی اور کراچی میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر بھی ریڈ کیا تھا۔

سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کی کراچی واپسی نے بھی الطاف حسین کی سیاست کو شدید نقصان پہنچایا تھا مگر اگست 2016 کی تقریر کے بعد الطاف حسین کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کر دیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ مزید دو حصوں میں بٹ گئی، متحدہ قومی موومنٹ لندن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی باگ ڈور پہلے فاروق ستار کے ہاتھ میں آئی مگر بعد میں انہیں بھی پارٹی سے الگ کر دیا گیا۔

4۔ جوڈیشل ایکٹیویزم اور دو وزرائے اعظم کی چھٹی

(سو موٹو، میمو گیٹ، رینٹل پاور کیسز، ڈیم فنڈ، ہسپتالوں کے دورے، پاناما پیپرز)

اگر یہ کہا جائے گا کہ 2010 کی دہائی میں عدلیہ نے قومی افق پر اپنے قدم مضبوطی سے جمائے تو غلط نہ ہو گا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سو موٹو نوٹس کی روایت کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی جاری رکھا اور مفاد عامہ میں متعدد کیسوں پر نوٹس لیا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مشہور کیسوں میں رینٹل پاور کیس، میمو گیٹ اور این آر او عمل در آمد کیس شامل ہیں۔ این آر او عمل در آمد کیس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا بھی سنائی گئی جس کی وجہ سے ان کو وزارت اعظمی سے ہاتھ بھی دھونا پڑا۔ رینٹل پاور کیس میں فیصلوں پر وفاقی حکومت 2019 میں بھی رینٹل کمپنی کے ساتھ معاملات نمٹاتی نظر آئی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور بھی سیاست کے لیے نہایت اہم رہا۔ انہی کے دور میں 2018 کے عام انتخابات ہوئے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے مشہور کیسوں میں ڈیم فنڈ کی مہم سر فہرست رہی جس میں انہوں نے پانی کی قلت کی وجہ سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز کیا۔ ڈیم فنڈ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے سابق چیف جسٹس نے بیرون ملک بھی دورے کیے۔ موجودہ حکومت نے بھی ڈیم فنڈ مہم میں چیف جسٹس کا ساتھ دیا۔

ڈیم فنڈ کے علاوہ عدلیہ کے لیے ’بابا رحمتا‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر بھی سابق چیف جسٹس خبروں میں رہے۔ سابق چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دوروں پر تنقید کی جاتی رہی کہ ان کے یہ اقدامات انتظامیہ کے کاموں پر نظر انداز ہو رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاناما پیپرز کیس میں نااہلی بھی سپریم کورٹ کے ذریعے ہوئی۔

3۔ پاناما پیپرز

اپریل 2016 میں پاناما پیپرز کے نام سے تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم نے آف شور کمپنوں اور ان کے تحت اثاثوں کا انکشاف کیا۔ اس انکشاف میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کا نام بھی شامل تھا۔

پاناما پیپرز کیس 2010 کی دہائی کے اہم ترین کیسوں میں سے ہے جس میں وزیراعظم شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا اور عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل قرار دیا گیا۔ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو جیل کی سزا بھی دی گئی۔

پاناما پیپرز کے بعد ملک بھر میں سیاست دانوں کے خلاف کیسز کا آغاز ہوا جس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے اہم رہنما جہانگیر خان ترین کے خلاف بھی کیسز سپریم کورٹ میں سنے گئے۔

احتساب کا یہ شکنجہ ابھی بھی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ ن لیگ کی دیگر قیادت بھی مقدمات کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، حنیف عباسی، رانا ثنا اللہ اور دیگر رہنما نیب کی حراست یا جیل میں قید ہیں۔ ن لیگ کے سربراہ شہباز شریف بھی پانچ مہینے نیب کی حراست میں گزار چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی تقریر میں عہد کیا تھا کہ وہ کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے اور ابھی تک وہ سیاسی حریفوں کے کیسوں میں رعایت دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔

ن لیگ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی کیسوں کا شکار ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی نیب کی حراست میں رہے۔ ان کی بہن فریال تالپور بھی نیب کی حراست میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف بھی پارک لین کیس میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔

سیاسی حریفوں کے خلاف کیسز پر تحریک انصاف حکومت پر تنقید بھی کی جاتی رہی مگر اتنی بڑی تعداد میں ملک کی تین بڑی جماعتوں میں سے دو جماعتوں کی قیادت کا جیلوں میں رہنا 2010 کی دہائی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔

2۔ اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ

اکتوبر 2016  میں انگریزی روزنامے’ ڈان‘ نے ایک خبر شائع کی جس نے ملک بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ ’ڈان لیکس‘ کے نام سے مشہور اس خبر میں بتایا گیا کہ سول حکومت نے عسکری قیادت کو پیغام دیا کہ عسکریت پسند گروہوں کے خلاف اگر کارروائی نہ کی گئی تو پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس خبر کے لیک ہونے کو وزیراعظم ہاؤس نے قومی سلامتی کے منافی قرار دیا اور اس کے بعد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلائی گئی کہ یہ خبر انہوں نے عسکری اداروں کو بدنام کرنے کے لیے خود لیک کی۔ اس خبر کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی بھی اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ڈان لیکس کے بعد سے ملکی سیاست میں عسکری اسٹیبلشمنٹ کا کردار مزید ابھر کر سامنے آیا۔ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین سینیٹ نہ لا سکی اور بلوچستان حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ مسلم لیگ ن کے اکثر رہنماؤں نے اس تبدیلی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا۔

اس کے علاوہ 2018 عام انتخابات میں بھی دبے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا بار بار ذکر ہوا اور میڈیا پر پابندیوں پر بھی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا سامنا رہا۔

1۔ عمران خان کی اڑان

ویسے تو عمران خان 1996 سے سیاست میں ہیں لیکن 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسے نے ان کی سیاست کو نیا رخ دیا۔ اس جلسے کی کامیابی کے بعد ملک بھر سے معروف سیاست دان عمران خان کی تحریک انصاف میں جوق در جوق جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہو گئی۔

سیاست کے ساتھ ساتھ 2015 میں عمران خان کی دوسری شادی اور پھر طلاق بھی قومی سیاست کا محور رہی۔ 2018 کے آغاز میں عمران خان کی تیسری شادی کی خبر نے بھی ان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔

2018 کے انتخابات میں عمران خان 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد بالآخر وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست