وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حج درخواستوں کی جانچ پڑتال کے لیے وزارت مذہبی امور نے واک ان انٹرویوز کا انعقاد کیا۔ تیس پوسٹوں کے لیے تقریبا تین ہزار امیدوار قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئے۔
سوات سے صرف اس نوکری کی غرض سے آئے ہارون خان کا کہنا ہے کہ نہیں لگتا کہ یہ ملازمت ملے گی، 30 پوسٹیں ہیں اور درخواست گزاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ نوکری نہ ملی تو پھر لائنوں میں لگیں گے اور دھکے کھائیں گے۔
دی انڈپینڈنٹ نے ان درخواست گزاروں میں سے چند سے ان کی کہانی اور ملازمت کے مواقع کے حوالے سے بات کی۔
اسلام آباد میں بے روزگاروں کی قطار
-
1/8
اسلام آباد میں حج درخواستوں کی پراسیسنگ کے لیے وزارت مذہبی امور نے واک ان انٹرویوز کا انعقاد کیا جس میں بے روزگاری کے مارے نوجوان روزگار کی تلاش میں جوق در جوق طاروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئے۔ -
2/8
یومیہ 1300 روپے اجرت کی بنیاد پر چھ مہینے کی عارضی ڈیٹا پراسیسنگ کی ملازمت کی 30 نشستوں کے لیے سینکڑوں افراد صبح سویرے وزارت کے دفتر کے باہر موجود تھے۔ -
3/8
جہاں ان نوجوانوں کے چہرے سے امید چھلک رہی تھی وہیں کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو اس تمام عمل سے ناامید دکھائی دے رہے تھے۔ -
4/8
اسلام آباد کی رہائشی مریم کے پاس ماس کمیونیکیشن کی ڈگری ہے مگر وہ ڈیٹا پراسیسنگ کی نوکری کے لیے امتحان دے رہی ہیں۔ جب مریم سے تعلیم کے مطابق روزگار کے بارے میں پوچھا گیا کہ تو ان کا کہنا تھا کہ ’تعلیم کے مطابق روزگار تو کیا تعلیم کے برعکس روزگار بھی نہیں مل رہا۔‘ مریم کہتی ہیں کہ ملازمت کے حوالے سے موجودہ حکومت سے فی الحال انہیں کوئی امید نہیں۔ -
5/8
سوات سے صرف اس نوکری کی غرض سے آئے 30 سالہ ہارون نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ہارون تین مہینے پہلے سعودی عرب میں سات سال ملازمت کرنے کے بعد واپس آئے۔ ہارون ملازمت کے حصول کے لیے مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ ’نہیں لگتا کہ یہ ملازمت ملے گی، 30 پوسٹیں ہیں اور درخواست گزاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ نوکری نہ ملی تو پھر لائنوں میں لگیں گے اور دھکے کھائیں گے‘۔ -
6/8
کمپیوٹر سائنس کی گریجویٹ آمنہ نواز نے ایک مہینے پہلے ہی اپنی پڑھائی مکمل کی ہے۔ آمنہ کو لگتا ہے کہ درخواست گزار بہت زیادہ ہیں مگر وہ کوشش کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔ آمنہ بھرتی کے طریقہ کار کو تو شفاف سمجھتی ہیں مگر عمومی طور پر ملک میں نوکریوں کی صورتحال سے نالاں ہیں۔ کہتی ہیں: ' پاکستان میں بالکل بھی نوکریاں نہیں ہیں، پچھلے مہینے ڈگری مکمل کرنے کے بعد 10 سے 15 انٹرویو دے چکی ہوں۔ بے روزگاری نوکریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔' -
7/8
اسلام آباد کے رہائشی ذیشان اجمل نے دو سال پہلے بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن مکمل کی ہے۔ نوکری کے لیے پر امید ذیشان کہتے ہیں کہ وہ ملازمت کے تعین کردہ معیار پر پورا اترتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر محنت کی جائے تو روزگار مل جاتا ہے۔ -
8/8
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈگری کے حامل 23 سالہ عاطف ستار ملازمت کے حوالے سے ناامید ہیں۔ کہتے ہیں: ’امید نہیں ہے مگر پھر بھی ٹیسٹ دینا چاہیے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ ناامید کیوں ہیں تو انہوں نے اقربا پروری کے حوالے سے کہا کہ بھرتی کرنے والوں کے اپنے جاننے والے بھی ضرور اس امتحان کا حصہ ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا: ' کیا پتا کچھ ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں پہلے ٹیسٹ کا پتہ ہو۔'