مظاہروں میں 300 سے زائد ایرانی ہلاک، ہزاروں زخمی ہوئے: ایمنسٹی

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اعدادوشمار قابل اعتبار رپورٹس اور عینی شاہدین کے بیانات کے بعد اکٹھے کیے ہیں۔

16 نومبر کوتہران  میں  اندھن کی قیمت میں اضافے کے خلاف مظاہرہ (اے ایف پی)

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ ماہ ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں کم از کم 304 افراد مارے گئے جب کہ اس دوران ہزاروں مظاہرین زخمی بھی ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اعداد و شمار قابل اعتبار رپورٹس اور عینی شاہدین کے بیانات کے بعد اکٹھے کیے ہیں۔

تاہم تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ تعداد حقیقت میں اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو دبانے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا۔

مظاہروں کے دوران گذشتہ چند روز میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور یہ تعداد اسلامی جمہوریہ کی 40 سالہ تاریخ میں کم ترین عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔ 

ایرانی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ بعض افراد، جن میں سے کچھ معصوم شہری بھی تھے، مظاہروں میں مارے گئے ہیں تاہم انہوں نے ہلاکتوں کی اصل تعداد نہیں بتائی۔

حکام نے یہ بھی بتایا کہ مظاہروں کے دوران سات ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد میں صحافی، طلبہ اور سماجی کارکن شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کو خدشہ ہے کہ حراست میں لیے گئے ان ہزاروں افراد کو دوران قید بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد میں 15 سال تک کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں جن کو بڑی عمر کے افراد کے ساتھ تشدد کے لیے بدنام تہران کے فشا فویا جیل سمیت دیگر عقوبت خانوں میں قید کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ہم نے تصدیق شدہ ویڈیوز کی فوٹیج کا تجزیہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز ہتھکڑی بند قیدیوں کی مکوں اور لاتوں سے مار پیٹ کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس دیگر درجنوں دستاویزی مقدموں کا ریکارڈ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ گرفتاریوں کے بعد قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے بہت کم ملنے دیا گیا یا ان کا سرے سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہوا۔‘

لوتھر نے مزید کہا کہ کچھ افراد کو جبراً لاپتہ کیے جانے والے حالات میں رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکام نے انہیں حراست میں لیا ہے لیکن ان کے خاندان کو ان کی حالتِ زار یا ٹھکانے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ نے مظاہروں کے خلاف حکومت کے پُرتشدد کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ایرانی شہر شیراز میں ایک 15 سالہ لڑکا دل میں گولی لگنے سے اس وقت ہلاک ہوا جب وہ سکول سے گھر جاتے ہوئے احتجاج کے قریب سے گزر رہا تھا۔

گذشتہ ماہ حکومت کی جانب سے اچانک راتوں رات ایندھن کی قیمت میں اضافہ کرنے کے بعد ایران بھر کے درجنوں شہروں میں ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے مظاہروں کو دبانے کے لیے بے دردی کا مظاہرہ کیا اور ملک کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کچھ دن کے لیے معطل کردی گئی۔

ایران میں ایک اعتدال پسند سیاسی جماعت کے ایک سینئر رکن جو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ حکومتی نااہلی، بدعنوانی، ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور سب سے بڑھ کر سٹیٹس سے عاجز عوام  سٹرکوں پر نکل آئے ہیں اور یہ کہ احتجاج کے خلاف ردعمل شدید اور بے مثال رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے مظاہرین اور ریاست دونوں کی جانب سے کبھی بھی اس طرح اور اس سطح پر تشدد نہیں دیکھا۔ ہمارا سامنا ایک ایسی ریاست کے ساتھ ہے جو صورت حال پر قابو پانے میں قاصر ہے اور وہ اس صورت حال کے بعد کسی قسم کے احتجاج کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔‘

ان کا ماننا تھا کہ مظاہرے ابھی تو شاید ختم ہو چکے ہیں لیکن مستقبل میں دوبارہ یہ احتجاج دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے کیونکہ عوام میں شکایات اب بھی موجود ہیں۔

گذشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے بعد سے ایران کو سخت ترین اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ واشنگٹن اس پالیسی کو ’زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے کی مہم‘ قرار دے رہا ہے تاکہ تہران کو مشرق وسطیٰ میں اپنا رویہ درست کرنے اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ نئے معاہدے کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مجبور کیا جا سکے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اب تک ان دونوں مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔

واشنگٹن میں خطرے کے تجزیہ کار  گلف سٹیٹ اینالٹکس کی خارجہ پالیسی کے مشیر سینا آزودی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے آہنی گرفت کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ خود کو باہر سے مضبوط ظاہر کر سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس کی بنیاد یہ ہے کہ معاشی دباؤ کا سامنا کرنے والی ریاست نے خود کو مزید سکیورٹی حصار میں لے لیا ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تشدد کو استعمال کرنے پر راضی ہو گئی ہے کہ وہ اپنا کنٹرول کھو نہ دے۔ مظاہروں کے دوران اس کی یہ کمزوری سامنے آئی ہے جس سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ حکومت بیرونی دباؤ میں گھیری ہوئی ہے۔ اور یہ وہ آخری کام ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا