آج کل میں ایک عجیب مسئلے کا شکار ہوں۔ لوگ میرے فیمینسٹ ہونے پر شک کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ میرا کھانا پکانا ہے۔ مجھے کچھ ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں:
’ارے تمہیں تو کھانا بنانا آتا ہے، تم فیمینسٹ تو نہ ہوئیں۔‘
’تم برتن دھو رہی ہو؟‘
’تم سگریٹ نہیں پیتی؟ کیسی فیمینسٹ ہو؟‘
بھائیو اور بہنو، ہم بہنیں بہت چھوٹی تھیں جب ہماری اماں نے باورچی خانے میں ہم بہنوں سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔ دال چاول بنا رہی ہیں تو ایک کو چاول دھونے پر لگا دیا اور دوسری کو دال دھونے پر۔ کچھ بڑے ہوئے تو چائے کی ذمہ داری دے دی۔ ایک سال اور گزرا تو باقاعدہ ہانڈی بنوانا شروع کر دی۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر تھا۔ وہ کمرے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور ہم بہنوں میں سے کوئی کچن میں ان کی ہدایات کے مطابق مصالحہ بھون رہی ہوتی۔
بھلا ہو زبیدہ طارق، شیف راحت اور شیف ذاکر کا جنہوں نے صرف بریانی کی ہی چھتیس اقسام عوام کو سکھا دیں۔ ایک دو بار ایسی تراکیب پر بھی ہاتھ صاف کر لیا۔ پھر یوٹیوب کا زمانہ آ گیا۔ دنیا کا کوئی کھانا پکانا ہو، یوٹیوب کھولیں، ڈش کا نام لکھیں، دس تراکیب آپ کے سامنے آ جائیں گی۔ جو اچھی لگے، اس پر کلک کریں اور ویڈیو کے ذریعے ترکیب سیکھ لیں۔
اس سب کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ مجھ سمیت میری باقی بہنیں بھی کھانا پکانے میں طاق ہو گئیں۔ گھر میں کوئی دعوت ہوتی، کھانا گھر پر ہی پکتا اور ہم سب مل کر ہی بناتے تھے۔ پڑھائی کے سلسلے میں اکیلے رہنا پڑا تو کھانے کا انتظام کرنا کبھی مسئلہ نہیں لگا۔ مجھے کھانا بناتا دیکھ کر کچھ لوگ جو مجھے بطور فیمینسٹ جانتے ہیں، میرے فیمینسٹ ہونے پر شک کرتے ہیں۔
تحقیق کی تو پتہ لگا کہ عوام کے نزدیک فیمینسٹ ایک عجیب سی مخلوق ہوتی ہے۔ وہ فیمینسٹ ایسی خواتین کو سمجھتے ہیں جن کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا۔ ان کے گھر پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے۔ نوکروں کی فوج گھر بھر کا خیال رکھتی ہے اور یہ خود اپنی بڑی سی گاڑی میں پورے شہر میں گھومتی رہتی ہیں۔ بوریت ہونے لگے تو یہ دو چار خواتین کو جمع کرتی ہیں اور انہیں غلط سلط پٹیاں پڑھاتی ہیں۔ ایک عام عورت بھی فیمینسٹ ہو سکتی ہے، یہ سوچ عجیب لگتی ہے۔
اسی لیے جب کوئی مجھے کھانا بناتا دیکھ کر میرے فیمینسٹ ہونے پر حیرانی کا اظہار کرتا ہے تو میں اسے بتاتی ہوں کہ ہم لڑکیوں سے کس کس سطح پر کس کس قسم کی تفریق کی جاتی ہے۔ آپ کو اولادِ نرینہ کی دعا مل جائے گی مگر بیٹی حاصل کرنے کی دعا نہیں ملے گی۔ لڑکی پیدا ہو تو ’چلو اگلی بار بیٹا ہو جائے گا‘ سننے کو ملتا ہے، بیٹا ہو تو مبارک باد۔ ہماری پڑھائی سے لے کر نوکری تک کسی محاذ سے کم نہیں ہوتی۔ پہلے تو اجازت لو، پھر خاندان بھر کی عزت کو سنبھالتے ہوئے پڑھائی یا نوکری کرو جبکہ لڑکے اس بار سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان کی اس آزادی کی قیمت لڑکیوں کو چار دیواری میں محکوم رہ کر ادا کرنی پڑتی ہے۔
ہم اس تفریق کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہماری کامیابیوں کو ہمارا ہاتھوں سے نکلنا سمجھا جاتا ہے۔ جو عورت جتنی کامیاب ہو گی اسے اتنا بد چلن تصور کیا جائے گا۔ یقین نہ آئے تو آپ بھری محفل میں کسی کامیاب عورت کا نام لے لیں۔ آپ کو اس کے بارے میں وہ سب کچھ سننے کو ملے گا جو آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ مزے کی بات وہی کامیابی اگر کسی مرد کو ملی ہو تو اس کی تعریفیں ایک زمانہ کر رہا ہوگا۔
ہم اس صنفی تفریق کی بات کرتے ہیں، تب ہی برے تصور کیے جاتے ہیں۔
کچھ دن قبل ٹوئٹر پر ایک صاحب کی ٹویٹ نظر سے گزری۔ لکھا تھا کہ جب انہیں اپنی ہونے والی اہلیہ کے فیمینسٹ ہونے کا پتہ لگا تو انہوں نے شادی سے انکار کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہیں اپنے سسر کا سوچ کر دکھ بھی ہوا لیکن یہ ان کی زندگی کا معاملہ تھا۔ وہ سسر کی ہمدردی میں اپنی زندگی تباہ نہیں کر سکتے تھے۔
اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایک عام انسان فیمینسٹ کو کیسی بلا سمجھتا ہے۔ لڑکی فیمینسٹ ہو تو لوگوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ارے بچو اس سے۔ یہ تمہیں تباہ کر دے گی۔ تم سے گھر کا کام کروائے گی اور تمہیں اپنے پیچھے پیچھے گھمائے گی۔
سب نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق فیمینسٹ کا خاکہ بنا رکھا ہے۔ کسی کی فیمینسٹ ہر بات کے جواب میں ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘ کہتی ہے تو کسی کی فیمینسٹ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی ہے تو کسی کی فیمینسٹ صرف چھوٹے کپڑے پہنتی ہے۔
ایسے میں اگر وہ کسی عام عورت کو فیمینزم پر بات کرتا دیکھیں تو انہیں جھٹکا سا لگتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی فیمینسٹ کو وہ سب کرتا دیکھیں جو ان کے مطابق ایک عورت کے کام ہیں تب بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
کھانا بنانا، برتن دھونا، اپنا بستر ٹھیک کرنا، کمرا صاف کرنا ایسے بنیادی کام ہیں جو ہر انسان کو آنے چاہیے۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کو یہ سب بہت چھوٹی عمر میں سکھایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں لڑکوں کو بھی امورِ خانہ داری سکھائی جاتی ہے مگر عموماً انہیں ان سب کاموں سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔ یہی لڑکے جب پڑھائی یا ملازمت کے سلسلے میں باہر جاتے ہیں تو وہاں کی سخت زندگی کا رونا ہی روتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے لیے کھانا بنانا، اپنے برتن دھونا اور اپنا کمرا صاف کرنا آتا ہوتا تو یہ زندگی کو اتنا سخت نہ سمجھتے۔
مجھے یہ بنیادی کام اس لیے سکھائے گئے کیونکہ میں لڑکی ہوں۔ میں لڑکا ہوتی تو مجھے نہ سکھائے جاتے۔ اب کھانا تو سب کھاتے ہیں۔ کھانے والے کو کھانا بنانا بھی آنا چاہیے۔ اس میں جنسی تفریق کہاں سے آ گئی؟ اگر یہ سب کام لڑکوں کو بھی سکھائے جائیں تو انہی کی زندگی آسان ہوگی، ہماری تو ویسے بھی آسان ہے۔
ہم فیمینسٹ اس جنسی تفریق ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، اس میں کسی کا نقصان نہیں۔ بس کچھ لوگوں کو اپنی انا کی قربانی دینی ہوگی۔ تب تک ہم فیمینسٹ فیمینزم کا پرچم سنبھالے بیٹھی رہیں گی۔ یہ پرچم آپ کو ہمارے دفتر میں بھی نظر آئے گا اور کچن میں بھی۔ ہمیں عام عورتوں کی طرح کام کرتے دیکھ کر حیران بالکل نہ ہو۔ ہم فیمینسٹ ہیں اور ہم ویسی ہی زندگی گزارتی ہیں جیسی کوئی بھی عام عورت۔ بس ہم بولتی ہیں، لکھتی ہیں اور اپنا حق مانگتی ہیں۔ کیا اس لیے ہم بلا تصور کی جاتی ہیں؟