بہت کم لوگ ہی شاید اس نام سے واقف ہوں۔ الف جانہ خٹکہ گذشتہ جمعرات خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں چل بسیں۔ الف جانہ1931 میں اس وقت پیدا ہوئیں جب اس علاقے پر انگریز حکمرانی کر رہے تھے۔
فیمینزم کی تحریک سے بھی بہت پہلے خواتین کے حقوق کے لیے الف جانہ خٹکہ نے آواز اس وقت اٹھائی جب اس حوالے سے عورت یا مرد، کسی میں کوئی خاص شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے شعر و شاعری کے ذریعے ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم، غلط رسم و رواج اور ان پر گھریلو تشدد کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔
الف جانہ کا نام پشتو زبان کے معروف شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اپنی شاعری میں انہوں نے زیادہ تر خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ 1928 میں پشتو زبان کے تاریخی رسالے ’پشتون‘ کا اجرا ہوا جس کی صدرات قوم پرست رہنما اور عوامی نیشنل پارٹی کے بانی قائد خان عبدالغفار المعروف باچا خان کر رہے تھے۔ کچھ برس بعد اسی میگزین میں الف جانہ کی شاعری چھپنا شروع ہوئی۔
پشتون میگزین میں پشتو کے شاعرپروفیسر ڈاکٹر فضل رحیم مروت الف جانہ کے حوالے سے لکھے گئے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ ’الف جانہ کے والد غنی شاہ انگریز فوج میں کپتان تھے۔ ان کے علاقے سے کافی لوگوں نے برطانیہ کی جنگوں میں حصہ لیا تھا جس کی ایک وجہ غربت بھی تھی۔‘
فضل رحیم مروت کے مطابق الف جانہ نے قرآن کی تعلیم گاؤں کے مولوی اور کچھ بزرگ خواتین سے حاصل کی تھی جب کہ انہوں نے اپنے گاؤں کے ایک سرکاری سکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انھوں نے پشتو ادب میں ماسٹرز ڈگری بھی حاصل کی۔
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالرؤف نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے لکھے گئے ایک مقالے میں بتایا کہ برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد میں مرد غالب تھے جب کہ اس تحریک میں عورتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ الف جانہ خٹکہ ان چند خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے اپنے قلم اور شعروشاعری کے ذریعے اس تحریک میں حصہ لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فضل رحیم مروت کے مطابق الف جانہ کو 1946 میں ایک تحریر لکھنے کی وجہ سے باچا خان کی جانب سے25 روپے کا انعام بھی دیا گیا تھا کیونکہ باچا خان کو وہ مضمون بہت پسند آیا تھا۔
باچا خان نے اس تحریر کے حوالے سے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ اب پشتون خواتین کو اپنی محرومیوں کا احساس ہوگیا ہے۔ الف جانہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے خدائی خدمت گار تحریک کا حصہ بن گئیں۔ خدائی خدمت گار تحریک کا آغاز 1929 میں ہوا تھا جو زیادہ تر معاشرتی اصلاحات اور عدم تشدد کے فلسفے پرقائم تھی۔
فضل رحیم مروت کے مطابق خدائی خدمت گار تحریک کا ایک اور اہم مقصد پشتون خواتین کو بیدار کرنا تھا تاکہ وہ اٹھیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔
فضل رحیم مروت نے اپنے مضمون میں لکھا کہ اس وقت جب پشتون میگزین کا اجرا ہو گیا تو خواتین اپنےاصلی ناموں سے مضامین نہیں لکھتی تھیں بلکہ ’آپ کی بہن‘ یا ’ایک بہن‘ کے ناموں سے مضامین چھاپے جاتے تھے۔ الف جانہ ان خواتین میں شامل تھیں جو اپنے حقیقی نام سے مضامین لکھتی تھیں۔
افغانستان سکولوں کے نصاب میں الف جانہ کی زندگی پر مضامین
الف جانہ خٹکہ افغانستان سے شائع ہونے والے میگزین ’کابل‘ کے لیے بھی لکھتی تھیں۔ اس میگزین نے1947 کے ایک ایڈیشن میں ان کی ایک طویل نظم شائع کی تھی۔ اس نظم میں پشتون معاشرے کی خواتین کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں کی بارے میں احتجاج دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے:
خپلی لور سره چې ستا سلوک راياد کړم
اپنی بیٹی سے جب آپ کا سلوک یاد کروں
د قريشو په دغه باندې زړه ښاد کړم
قریش کی دغا بازی پر دل خوش ہوتا ہے
په محشر چې دا انصاف تله شې لکه
جب محشر میں انصاف کا ترازو اٹھا یا جائے
ستا ګريوان ته به لاس واچوم بې شکه
آپ کے گریبان پر بے شک میں اپنا ہاتھ رکھوں گی
چيرته لور چې شې پيدا د چا په کور
جب کبھی کسی گھر میں بیٹی پیدا ہو جائے
نو د مور پہ تور تندې يې شې اور بل
تو ماں کی پیشانی پر آگ لگ جاتی ہے
اور د خپلو د پردو شې د پېغور
اور اپنے پرائے ان کو طعنے دیتے ہیں
ملامت وربادندې کيزي اور د لور
بیٹی کی پیدائش پر انہیں ملامت کی جاتی ہے
اس کے علاوہ افغانستان کے سکولوں کے نصاب میں الف جانہ خٹکہ کی زندگی اور خواتین کے حقو ق کے لیے آواز اٹھانے پر ایک پورا باب موجود ہے۔ اس باب میں لکھا گیا ہے کہ الف جانہ کی شادی 12 سال کی عمر میں ’بدل‘ کی روایتی رسم کے مطابق ہوئی تھی۔ بدل، وٹہ سٹہ، جسے افغانستان میں ولور بھی کہتے ہیں، ایک رواج ہے جس میں لڑکی دشمنی یا صلح میں دوسرے فریق کے ایک شخص سے بیاہ دی جاتی ہے۔
اس مضمون کے مطابق یہ شادی زیادہ دیر تک نہیں چلی اور وہ دوبارہ اپنے والد کے گھر آ گئی تھیں۔ بعد میں وہ گاؤں کے ایک نجی سکول میں بچوں کو پڑھاتی رہیں۔ الف جانہ خٹکہ طویل عرصے سے علیل تھیں اور 90 سال کی عمر میں وہ چل بسیں۔