اولین و سابقین سے جن احباب کا ذکرِ خیر آج مقصود ہے اُن کو بارسلونا کے اہل ادب و سُخن کی چولی سمجھ لیں۔
بارسلونا کی یہ تین شخصیات ایسی ہیں جو اس یورپ کے خطے میں ادب کی خوشبو بکھیر رہی ہیں۔ بارسلونا کی ادبی دُنیا پر ان کے احسانات گراں قدر ہیں۔ ان شخصیات کا تعارف کیا کیا جائے کہ ’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘ اور تعارف کا یہ فرض آج لگی لپٹی رکھے بغیر ادا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
قارئین، شروع کیے لیتے ہیں راجہ شفیق کیانی سے کہ راجہ صاحب ہسپانیہ وارد ہونے والی اولین پاکستانیوں کی ادب دوست کھیپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کاج کیا سو کیا مگر ساتھ اردو ادب و سُخن کے لیے بھی محنت کرتے رہے۔ وہ بارسلونا میں کبھی ہسپانوی ریڈیو سے مُنسلک رہے، بچوں کے لیے پہلی باقاعدہ ہسپانوی زبان سکھانے کی غرض سے کتاب بھی لکھ ڈالی جو باقاعدہ لائبریریوں میں دستیاب ہے۔ اُنہوں نے ’پاکسلونا‘ کے نام سے پہلا اردو ایف ایم ریڈیو بھی قائم کیا جو 24 گھنٹے پاکستانیوں کو ایک طویل عرصہ ادب و شاعری و موسیقی سے محظوظ کرتا رہا۔
کیانی صاحب بے شمار اردو مشاعروں، ادبی تقاریب کے معمار ہیں۔ وہ یورپین اردو لٹریری سرکل کے اہم رکن کی حیثیت سے یورپ میں نگر نگر گھومتے ہیں۔ یہ اور بات ہے وہ ادبی سرحدیں ناپتے یورپ سے باہر ترکی کی قومی جامعہ میں باقاعدہ اقبال پر بھی سیر حاصل گُفتکو کرتے پائے گئے۔ راجہ صاحب کی جڑیں پرانے نیم کے درخت کی مانند اقوام متحدہ کے ادارے کاسا ایشیا بارسلونا سے لے کر حکومتی ادبی فروغ کے اداروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
ہم ترتیبِ زمانی سے حالتِ مکانی میں آتے ہیں جناب افضال احمد بیدار کی جانب، جن پر معروف شاعر، ادیب و کالم نگار محمد اظہارالحق کے ’کئی موسم گُزر گئے مجھ پر‘ دو وجوہات کی بنا پر صادق آتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ موصوف محترم اظہار الحق کے زمانۂ طالب علمی کے دوست ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کماحقہ شاعر بھی ہیں۔ پاکستان سے معاشیات میں سند یافتہ ہیں جبکہ جامعہ ایتھنز سے فلسفہ پڑھا۔ فلسفہ پڑھتے خاتون ہسپانوی طالبہ سے محبت کی منازل طے کرتے شادی کی اور پھر ہسپانیہ آ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ کی غزلیات آپ کی عُمر سے خلاف توقع میل نہیں کھاتیں کہ اچھا بھلا ادھیڑ عمر اپنے اندر تحریک محسوس کرتا ہے مگر بیدار صاحب کا یہ فن ہے۔ آپ کا موضوع محبت کی آبیاری اور اصلاح احوال کی تیاری ہے اور آپ جان و شانِ محفل ہوتے ہیں۔ شاعری کے علاوہ بیدارصاحب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں مگر اس زندگی کے پیچھے پہلا پاکستانی نژاد عملی سیاستدان ہے جس نے 1981 میں ہسپانوی سوشلسٹ جماعت میں رکنیت اختیار کر کے مستقبل کے پاکستانیوں کا ’چاہکا‘ کھولا۔ وہ پاکستان پریس کلب کے صدر رہے، پاکستانی بچوں کو پڑھایا اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر اداروں میں بھی بھیجا۔ انہوں نے ادبی اور سماجی تنظیمیں بھی بنوائیں۔ فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال جو جامعہ بارسلونا کی فیلٹی آف لا اور فلسفہ میں لیکچر دے چُکے ہیں۔ معروف شاعر محمد اظہار الحق کی میزبانی کر چُکے ہیں۔ پاکستان سپین کلچرل ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے عابدہ پروین اور اُستاد نصرت فتح علی خان بارسلونا اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
اب آ جائیے اُس شخصیت کی طرف جو 20 سال قبل سیالکوٹ سے براستہ غرناطہ پہنچے بارسلونا۔ سیالکوٹ میں مرے کالج میں درس و تدریس سے منسلک تھے، غرناطہ میں چار سال رہے اور 16 سال سے بارسلونا میں ہیں۔ غرناطہ کے بھٹی صاحب اور بارسلونا میں پروفیسر طاہر اعظم، جو ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں، کے ہاں ملنگ ایک مقام ہے۔ اُنہیں چھیڑ کر گھنٹوں غالب سُنتے رہیں، اور درمیان میں کہیں روک کر بلا جھجک شیکسپیئر موڈ پر لے جائیں۔ پروفیسر صاحب کی طبیعیت کا میلان آپ کی طرف ہوتاہے کہ چاہے تو شِو کمار بٹالوی سُن لیں، امرتا پریتم یا جوش اور اگر دل چاہے تو پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو و انگریزی ادب کی تحاریک پر بات کر لیں۔ ناول اور شعر پڑھنا اُن کا میدان ہے مگر وہ لکھتے بھی ہیں یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ پنجابی میں مختصر’ونڈ‘ کی غزل پہ یوں ہاتھ صاف کرتے ہیں جیسے بندہ مرغوب کھانے پر۔ ان کی ایک پنجابی غزل سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
آ جا چیتر جان توں پہلاں
پُھلاں دے کملان توں پہلاں
سُکھ سنیہڑا تے سُن لیندوں
چھت توں کاگ اُڈان توں پہلاں
پلکیں دیوے بالنے پیندے
راہیں نین وچھان توں پہلاں
اپنے نقش مَیں چھڈ جاواں گا
تیرے جگ توں جان توں پہلاں
خورے کِنیاں میزاناں نیں
محشر دی میزان توں پہلاں