جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت فوج کے سربراہ نہیں بلکہ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں اور جس طرح دیگر سیاست دانوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے، اسی طرح مشرف کے خلاف فیصلے پر بھی بیانات جاری نہیں کرنے چاہییں۔
پیر کو سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کے مختصر اور جمعرات کو تفصیلی فیصلہ آنے تک پاکستان فوج دو مرتبہ اپنا ردعمل ظاہر کر چکی ہے۔
جمعرات کو خصوصی عدالت کے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے لکھے تفصیلی فیصلے میں پیراگراف 66 پر اُسی دن ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ فیصلے میں استعمال ہونے والے الفاظ مذہب، انسانیت، تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر کے خلاف تفصیلی فیصلے سے وہ تمام خدشات درست ثابت ہو گئے جن کا اظہار مختصر فیصلے کے بعد کیا گیا تھا۔
اس پر پاکستان بار کونسل نے میجر جنرل آصف غفور کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کونسل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا: ’ہماری رائے ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان آئین اور قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت بھی جسٹس وقار کے تفصیلی فیصلے پر شدید ردعمل دکھاتے ہوئے ان کی ذہنی صلاحیت پر سوال اٹھا چکی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کرے گی۔
ہفتے کو پشاور میں ایک تقریب سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات اداروں میں ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کرتے ہیں، حالات سنگین ہیں لہٰذا پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔
انھوں نے فوج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا یہاں صرف ایک ادارہ ہے جو خود کو دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محب وطن سمجھتا ہے۔
’مشرف کے خلاف فیصلہ آیا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو فوج کہتی ہے کہ ہم عدلیہ کے ساتھ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مشرف فیصلے پر ترجمان پاک فوج کا ردعمل ٹھیک نہیں۔
اپنے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی آڑھے ہاتھوں لیا۔
ان کا کہنا تھا موجودہ قومی اسمبلی متنازع اور عمران خان کی حکومت حماقتوں کا مجموعہ ہے۔ ’ناکام، ناجائز اور نااہل حکومت کی حماقتوں کی وجہ سے آرمی چیف بھی مذاق بن گئے ہیں۔‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مولانا فضل الرحٰمن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اور اسمبلی کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اختیار نہیں۔ ’اس اسمبلی کو آرمی چیف کی توسیع کی قانون سازی کاحق نہیں دے سکتے ورنہ یہ قانون متنازع ہوگا، کیوں کہ یہ اسمبلی ہی متنازع ہے۔‘