قائد اعظم، قائد اعظم اور قائد اعظم بس، جسے دیکھو اپنے مذموم مقاصد کا حصول ممکن بنانے کے لیے قائد اعظم کو ہی بیچتا رہتا ہے۔
قائداعظم کو سب ہی چاہتے ہوئے اور جو لوگ نہیں چاہتے اس کے باوجود وہ بھی عقیدت و محبت کا دم بھرتے ہیں۔
سرکاری ہوں یا نجی دفاتر سب ہی جگہ باس کی کرسی کے پیچھے قائد اعظم کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ جائز تو کم ہی لیکن ہر ناجائز اور غیر قانونی کام قائد اعظم ہی کی تصویر کے زیر سایہ کیا جاتا ہے۔سب ہی انہی کو اپنا نجات دہندہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قائد اعظم ہی ہیں جو سب کی کشتی پار لگاتے ہیں۔
سیاستدان سے لے کر بلڈر مافیا، سڑکیں بنانے والی بڑی یا چھوٹی کمپنیاں سب ہی قائد اعظم کے ذریعے بند تالے کھولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے سب ہی لوگ بابائے قوم کو عظیم ترین لیڈر سمجھتے ہیں۔ ان کے ایام بڑے زور و شور سے مناتے ہیں لیکن ان کی ایک نہیں مانتے۔
لوٹ مار کرنے والی اشرافیہ کے سوا پاکستان کا ہر شہری ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے کیونکہ یہ وہ پاکستان تو ہر گز نہیں جیسا قائداعظم چاہتے تھے۔
سیاستدان ہوں یا ملک کے کرتا دھرتا سب کو اپنی لگی ہوئی ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنے پر ہے۔ قائداعظم کا نام صرف ایک شیلڈ کے طور پر ہی رہ گیا۔ وقت ضرورت نکال لیا جاتا ہے اور پھر بس۔
معزرت کے ساتھ ہم آج تک ایک قوم ہی نہیں بن سکے۔ بدقسمتی سے ہم تو صرف ایک بے ہنگم ہجوم سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتدار پر قابض ہونے والے پاکستان کے لیڈر ہی پاکستان کو قائد اعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کے مخالف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاسی حکومتیں ہوں یا آمریت والی حکومتیں سب ہی قائد اعظم کے فرمودات کی نفی کرتی آرہی ہیں۔
محبت کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں، لمبی لمبی تقاریریوں جڑ دیتے ہیں لیکن عملی طور پرکچھ نہیں۔
قائد اعظم سب کو جوڑنا اور یکجا کرنا چاہتے تھے۔ افسوس ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے تقسیم در تقسیم کے نظریے کو پروان چڑھایا۔
قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں سب اپنے عقیدوں کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں۔
افسوس اپنے مذموم مقاصد کا حصول ممکن بنانے کے لیے ان ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے سرزمین پاکستان پر نفرتوں کے بیج بوئے۔ فتووں کی فیکٹریاں لگانے والوں کی سرپرستی کی۔ پھر قائد اعظم کے پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا جانے لگا۔
تہوار ایک دوسرے کو جوڑنے اور قریب لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن قائد اعظم کے پاکستان میں تہوار ایک دوسرے کو توڑنے اور دور کرنے کا سبب بننے لگے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں خوشی ہو یا غم کا موقع وہ سنگینوں کے سائے میں منائے جانے لگے۔ جلوسوں کے مواقعوں پر موبائل فون سروس بند، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی، دکانیں اور مارکیٹس کئی روز پہلے ہی سے سیل کر دی جاتیں ہیں۔ کئی کئی کلو میٹر تک سڑکیں گھنٹوں پہلے بند کر دی جاتیں ہیں۔ یہی صورت حال کرکٹ میچ کے موقع پر ہوتی۔ قائد اعظم نے تو سب کو ایک آزاد معاشرہ دیا تھا کسی کی آزادی سلب نہیں کی تھی۔ پھر آج ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
معاشرے کے اس بگاڑ میں جتنے قصور وار ناعاقبت اندیش حکمران ہیں اتنے قصور وار عوام بھی ہیں۔ اسی طرح عدل و انصاف کی صورت حال بالکل واضح ہو چکی ہے۔ سب کو اپنی مرضی کا انصاف اور قانون چاہیے۔ کوئی قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا۔
افسوس ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی طرح میڈیا بھی عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ قائد اعظم کے پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے میں تمام ہی ادارے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
قائد اعظم کے پاکستان میں تعلیم اور صحت کا شعبہ سب سے منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ سازش کے تحت حکومت نے ان دونوں شعبوں کو کاروباری طبقے کے حوالے کر دیا۔ قائد اعظم کے پاکستان میں تعلیم اور صحت کے کاروبار سے وابستہ افراد عوام کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔
یہ کیسا قائد اعظم کا پاکستان ہے جہاں عوام پر ظلم کرنے اور لوگوں کی مجبوریوں سے کھیلنے والے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے مطلب کی قانون سازی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان تو قائد اعظم اور مدینہ کی ریاست کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ ڈیڑھ سال تو گزر گیا یہ ورد سنتے سنتے لیکن ابھی تک قائداعظم کے تصور کے مطابق پاکستان فلاحی اور جمہوری ریاست نہیں بن سکا۔
قائد اعظم کو 72 سال سے ہر چوراہے پر بیچا جارہا ہے۔ قائد اعظم کو سچائی سے محبت اور منافقت سے نفرت تھی۔ قائد کا یوم پیدائش ایک بار پھر 25دسمبر کو شایان شان طریقے سے منایاجائے گا۔ قائد اعظم سے محبت کا اظہار کرنے اور ان کی یاد منانے کے لیے25 دسمبر کو عام تعطیل بھی دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن منافقت کا عالم یہ ہے کہ قائد اعظم کی ماننی ایک بھی نہیں۔