نوٹ: یہ تحریر پہلی بار 27 دسمبر 2019 کو شائع ہوئی تھی۔
23 دسمبر 2007
’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘ طلعت حسین صاحب نے تقریباً چلاتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
’سر، میں نے خود کور کیا ہے، بے نظیر صاحبہ نے یہی کہا ہے۔‘ میں نے جواب دیا۔
’باقی چینلوں پر تو نہیں ہے، مجھے آڈیو سناؤ۔‘ طلعت صاحب نے استفسار کیا۔ میں حیران تھا کہ طلعت صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔ ’آج نیوز‘ پر تو کہیں زیادہ حساس رپورٹنگ میں نے کی ہے کبھی انہوں نے پوچھا تک نہیں پھر اب ایسا کیا چل گیا۔
میں نے فون پر ہی سٹوڈیو سے بے نظیر بھٹو کی آواز سنا دی جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ ’آج جب طالبان سوات سے اسلام آباد پہنچیں گے اور ہمارے ایٹمی اثاثے ان کی جھولی میں گریں گے اور ہم یہ لشکر پالیں گے تو کیا دنیا خاموشی سے دیکھے گی؟‘
فون کے دوسرے سرے پر طلعت صاحب تھوڑی دیر کو خاموش رہے پھر جیسے خود سے بولے: ’اب تو یہ ماری جائے گی۔۔۔‘ اور فون کاٹ دیا۔
وہ اتوار کا دن اور دسمبر کی سرد صبح تھی۔ رپورٹروں کی چھٹی تھی اس لیے میں صبح خود پیپلز پارٹی کے رہنما سید ظاہر علی شاہ کے گھر پہنچا جہاں بےنظیر بھٹو کے ہمراہ شاہ صاحب کی ہمشیرہ روبینہ خالدہ صاحبہ بھی موجود تھیں۔ سورج نکلا ہوا تھا لیکن ہوا سرد تھی۔ پریس کانفرنس شروع ہوئی تو بی بی صاحبہ نے پشاور میں اس روز ہونے والی دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کی تو سارے رپورٹروں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا کیونکہ وہ شاید واحد دن تھا جب پورے صوبے میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔
ہم نے وضاحت کی تو کہا چلو شکر ہے آج کا دن خیر سے گزرے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ہم صحافی ایک انجانا خوف محسوس کر رہے تھے اور میں کچھ زیادہ ہی محتاط تھا۔ ایک تو بی بی پر کارساز کراچی میں ایک سنگین حملہ ہو چکا تھا اور پھر میں نے خود جانی خیل بنوں میں حکیم االلہ محسود سے سنا تھا کہ دسمبر میں ہی دوسرا حملہ ہو گا جس کی کامیابی یقینی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا، ’پشاور میں؟‘
تو اس نے مسکرا کر کہا، ’پشاور کے اجتماع میں، ورنہ راولپنڈی میں کوشش کی جائے گی۔‘
یہی ماحول تھا کہ جب ہمارے ساتھی خلیل الرحمٰن مائیک رکھ رہے تھے تو مائیک میز پر لاؤڈ سپیکر سے بھاری آواز پیدا کر کے دھڑام سے گرا جس سے تمام صحافی چونک اٹھے۔ لیکن پھر سارے مسکرا دیے۔ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو ظاہر شاہ صاحب کے روزنامہ مشرق کے دنوں کے لاڈ پیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے محترمہ سے علیحدہ ملاقات کی۔ میں نے ان کو کہا کہ وہ بے پناہ احتیاط کریں اور یہ کہ میں نے خود سنا ہےکہ اس پر اگلے چند دنوں میں ہی دوسرا حملہ ہو گا۔
عجب خاتون تھیں جیسے خود مقتل جانے کا شوق تھا۔ کہا، ’بالکل، مجھے اندازہ ہے۔‘ بلکہ الٹا ہنس کر کراچی کے حملے کے بارے میں کہا، ’پتہ ہے ہجوم میں ایک شخص نے کپڑوں میں لپٹے بچے پر ہاتھ رکھنے کا کہا میں آگے بڑھنے لگی تو میری سیکورٹی نے مجھے روکا بعد میں پتہ چلا کہ اس میں بم لگا ہوا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے کہا، ’بی بی خود آپ یہ تسلیم کرتی ہیں پھر بھی؟‘
فرمانے لگیں، ’ہاں، لیکن میں عوام سے دور نہیں رہ سکتی۔ آج قوم کو میری ضرورت ہے۔ باقی اللہ جب بچاتا ہے تو کراچی جیسے حملے میں اللہ نے دیکھو کیسے بچایا۔ مجھے تو کہا گیا کہ اس حملہ میں زخمیوں کی عیادت پر بھی نہ جاؤں کہ وہاں حملہ ہو گا لیکن میں گئی اور ساتھیوں کی عیادت کی۔‘
27 دسمبر2007
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک اور سرد صبح۔۔ بی بی صاحبہ افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ سرینا ہوٹل میں ملیں۔ اس ملاقات میں افغان صدر نے صاف صاف کہہ دیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ افغان صدر نے بدھ کو ایک روز قبل ہی جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی تھی اور اپنے دو روزہ دورے میں واپسی سے قبل غالباً بی بی صاحبہ کو ان خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے رکے تھے۔
یہ ملاقات مختصر تھی کیونکہ اس ملاقات کے بعد بی بی صاحبہ کو راولپنڈی جلسہ گاہ پہنچنا تھا۔ افغان صدر بی بی کو لفٹ تک الوداع کہنے ساتھ چل رہے تھے۔ بی بی نے کہا، ’اسلام آباد کا موسم خوبصورت ہے۔‘
افغان صدر نے کہا، ’مجھے اسلام آباد کے موسم سے پیار ہے۔‘
لفٹ کے قریب پہنچ کر بی بی نے مڑ کر کہا، ’اب میں الوداع کہوں گی۔ بہت شکریہ، پھر ملیں گے۔‘
افغان صدر نے جواباً کہا، ’احتیاط کریں اپنا خیال رکھیں۔‘
لفٹ سے نیچے اتر کر بی بی نے میڈیا کے ساتھ اپنی زندگی کی آخری بات چیت کی۔
یہ ملاقات اور بات چیت اے پی نے رپورٹ کی جس کا لنک یہ ہے۔
اس کے بعد بےنظیر لیاقت باغ روانہ ہوئیں جس کی تاریخ پہلے ہی سے خونی تھی، اور جہاں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا تھا اور اور ایک اور سابق وزیر اعظم کی شمعِ زندگی بجھنے جا رہی تھی۔ میری نظریں ٹی وی سکرین پر تھیں اور نیوز روم میں باقی ساتھی بھی دھیان سے دیکھ رہے تھے کیونکہ رسک والی اطلاع احتیاط کرنے کے لیے میں پہلے سے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ شیئر کر چکا تھا۔ جب جلسہ خیریت سے گزرا تو سارے میری طرف دیکھنے لگے کہ میرے خدشات غلط ثابت ہوئے۔
میں خاموش بیٹھا ساتھیوں کی گفتگو سن رہا تھا جو کہہ رہے تھے کہ اگر میرے جیسے جونیئر کو اتنا پتہ تھا تو کیا پارٹی اور حساس اداروں کو پتہ نہیں ہو گا؟ ’انہوں نے پورا بندوبست کیا ہو گا۔ بی بی پاگل تھوڑی ہیں کہ اتنا رسک لیں؟‘
اتنے میں سکرین پر پٹی سرخ ہوئی: ’لیاقت باغ کے قریب دھماکہ!‘
پھر دوسری پٹی: ’بےنظیر بھٹو کے قافلے میں دھماکہ!‘
تیسری پٹی: ’حملے میں بے نظیر بھٹو زخمی!‘
چوتھی: ’بے نظیر بھٹو کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا!‘
مجھے پتہ چل گیا تھا کہ احتیاطی ٹکر ہیں اور شاید بی بی اب نہیں رہیں، لیکن یہ بات میں نے خود تک محدود رکھی۔