سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران انگلینڈ میں تقریباً 19 ہزار بچوں کو جنسی استحصال کے لیے گروم کیا گیا، جس کے بعد حکام نے متنبہ کیا ہے کہ صورت حال اتنی سنگین ہے کہ ’وبا‘ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف سرگرم رضاکار کہتے ہیں کہ حقیقی اعداوشمار کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ روتھرہم اور روش ڈیل جیسے ہائی پروفائل کیسز کے بعد کیے گئے وعدوں کے باوجود اس سنگین مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ۔
2018-19میں حکام نے 18 ہزار،700 ایسے بچوں کی شناخت کی جن کو مبینہ طور پر جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ۔ پانچ برس پہلے یہ تعداد 3300 تھی۔
روتھرہم سے لیبر رکن پارلیمنٹ سارہ چیمپیئن نے کہا کہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسی استحصال کے لیے بچوں کی گرومنگ ’ملک میں بچوں سے بدسلوکی کی سب بڑی مثالوں میں سے ایک ہے۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا’حکومت نے کئی بارکہا کہ وہ ’سبق سیکھے گی‘ لیکن اس کے باوجود 19 ہزار بچے جنسی استحصال کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘
’حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ حکومتی حکمت عملی غیرمربوط اور فنڈ کی کمی کا شکار ہے۔‘
ٹوری پارٹی کے سابق وزیر داخلہ ساجد جاوید نے 2018 میں بچوں کی جنسی استحصال کے لیے گرومنگ کرنے والے سرگرم گروہوں کی خصلتوں کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بڑے کیسز ،جن میں’پاکستان سے تعلق رکھنے والے مردوں کی بڑی تعداد‘ شامل ہے، ’ثقافتی وجوہات‘ کا کردار ہوسکتا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سمجھتا ہے کہ ہوم آفس نے پولیس اور دوسری ایجنسیوں سے ملنے والے ڈیٹا کا تجزیہ اپنے طور پرکرنا شروع کیا اور وہ اس تجزیے کو پالیسی کی تیاری اورسد باب کی حکمت عملی کی تیاری میں استعمال کرنے کے لیے فراہم کرے گا۔
لیکن ڈیٹا سے اخذ کیے گئے نتائج شائع نہیں کیے جا سکتے اور ملکہ برطانیہ کی تقریر میں، جس نے وزیراعظم بورس جانسن کو قانون سازی کے لیے ایجنڈا دیا، عوامی جائزے کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بچوں سے متعلق محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار میں سماجی دیکھ بھال کا حوالہ دیا گیا ہے، جو ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق کیسز کی تعداد میں 2013 سے ڈرامائی طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت پہلی بار بچوں کی جنسی گرومنگ کو جائزے کے ایک حصے کے طور پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 2017 اور 2018 میں بچوں کو پھانسنے کی کوششوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہزار ہو چکی ہے۔
بچوں کو پھانسنے میں ملوث گروہوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات چلانے کا عمل ملک بھر میں جاری ہے ،جن میں ہڈرزفیلڈ کا علاقہ بھی شامل ہے جہاں کئی مقدمات میں بچوں سے بدسلوکی کرنے والے افراد کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔
روتھرہم میں جہاں 2012 میں ایک اندازے کے مطابق 1500 بچوں کے جنسی استحصال کا قومی سکینڈل منظر عام پرآیا تھا، وہاں نیشنل کرائم ایجنسی نے 190 سے زیادہ مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے۔
روتھرہم کی ایک متاثرہ بچی سیمی وڈہاؤس نے،جنہوں نے سکینڈل کو سامنے لانے میں مدد کی تھی، کہا انہیں ملک کے مختلف حصوں سے اب بھی بچوں سے بدسلوکی کی تازہ اطلاعات مل رہی ہیں۔
انہوں نےدی انڈپینڈنٹ کو بتایا ’آپ سرکاری ایجنسیوں سے سنتے ہیں کہ’سبق سیکھ لیا گیا ہے‘ لیکن انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔‘
’میں اب بھی بہت کچھ ایسا سنتی ہوں کہ حکام وہ کچھ نہیں کر رہے جو انہیں کرنا چاہیے۔ میں کوئی اچھی خبر کم ہی سنتی ہوں ،جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ اگر پولیس اطلاعات ملنے پر کارروائی نہیں کرے گی تو لوگوں محسوس کریں گے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی یا ان کی مناسب مدد نہیں کی جا رہی یا انہیں معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔‘
وڈہاؤس کو 14 برس کی عمر سے ارشد حسین نامی شخص نے ریپ کرنا شروع کیا تھا۔ وڈہاؤس نے کہا مقامی کونسلوں کے مطابق اس وقت بچوں کو جس پیمانے پرجنسی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس پر انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
’میرے خیال میں سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے انہیں اس کا علم ہی نہیں۔ زیادہ تر لوگ پولیس کو اطلاع ہی نہیں دیتے اور وہ ریڈار کے نیچے سے گزر جاتے ہیں۔‘
’میں کئی برس تک کہتی رہی کہ بدسلوکی اور استحصال کے معاملے میں ملک میں وبائی صورت حال ہے۔ حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ معاملات قابو میں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔‘
محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف لنکا شائرکے مقامی علاقے میں سب سے زیادہ (624) بچے جنسی گرومنگ کا نشانہ بنے۔
اس کے بعد برمنگھم میں (490)، سرے میں (447)، بریڈفورڈ میں (414) اور گلوسیسٹرشائر میں(409) بچوں کو جنسی گرومنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
لیڈز اور اس سے ملحقہ علاقے بریڈ فورڈ ،جہاں اس سال کے شروع میں نو’گرومنگ گینگز‘کو جیل بھیجا چکا ہے ،متاثرہ بچوں کی سب سے زیادہ تعدادیعنی 649 ہوگی۔
بچوں کو اکسانے والے گروہ لڑکیوں کو بس میں کرنے یا انہیں سیکس پر مجبور کرنے کے لیے منشیات اور شراب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مجرمانہ سرگرمیاں بعد میں متاثرہ بچوں کے پولیس کو رپورٹ کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
بچوں کو پھانسنے کے کئی طریقے ہیں جن میں سے سب زیادہ معروف ’بوائے فرینڈ‘ ماڈل ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ استحصالی تعلقات کو دوسرے افراد کے ساتھ جنسی عمل پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بچوں کو سمگل کرنا اور آن لائن یا نام نہاد پارٹی میں دوست بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں مردوں کے گروہ بچوں کو ہدف بناتے ہوئے انہیں پارٹیوں میں اکٹھے ہونے کا لالچ دیتے ہیں۔ انہیں شراب، منشیات، پیسوں اور کار کی سیر کی پیش کش کی جاتی ہے۔
کچھ نوعیت کا جنسی استحصال مجرموں کے گروہوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ گینگ منشیات کی ترسیل کے لیے یا تو لڑکیوں کو رقوم دیتے ہیں یا پھر انہیں اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔
روتھرہم اور روش ڈیل کے بڑے کیسز میں متاثرہ بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کی عمر کہیں زیادہ بڑی تھی، لیکن پولیس کہتی ہے کہ بعض علاقوں میں بچوں کو انہی کے سکول یا علاقے سے ہم عمر بچوں کی طرف سے جنسی استحصال کا نشانہ بنانا زیادہ عام ہے۔
بچوں کے تحفظ کے لیےبنائے گئے نیشنل پولیس چیفس کونسل کے اہم ادارے سے تعلق رکھنے والے سائمن بیلے نے کہا افسر’نوجوانوں کو ان کے استحصال اوران سے بدسلوکی میں ملوث مجرموں کے تقاقب اور ان پر مقدمات چلانے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’بدسلوکی شروع میں ہی روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے براہ راست رابطہ رکھنے والے یقینی بنائیں کہ وہ انہیں دیانت دارانہ گفتگو، تعلیم اور تحفظ کے مناسب اقدامات کے ذریعے خطرات سے محفوظ کررہے ہیں۔
’اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ بچوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے کے لیے مزید اقدام کی ضرورت ہے تاکہ ان کے پلیٹ فارمز کو اس گھناؤنے مقصد کے لیے استعمال ہونے سے بچایا جا سکے۔‘
مس چیمپیئن نے بچاؤ کےلیے مزید کوششوں کی ضرورت پر زور دیا جن میں یوتھ کلبز کا قیام، سپیشل سروسز، جنسی صحت کے ہسپتالوں کا قیام اور ایسے مقدموں کی پیروی کے لیے پولیس اور کراؤن پراسیکیوشن سروس کو مزید فنڈز کی فراہمی شامل ہے۔
’ہم جنسی استحصال کے لیے پھانسنے کے عمل کی پردہ پوشی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیوں جنسی استحصال ہمیشہ پردوں کے پیچھے ہی پھلتا بھولتا ہے۔‘
ہوم آفس نے روتھرہم اور نارفالک کیسز سمیت جنسی استحصال کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کے لیے خطیر رقم فراہم کی تھی جبکہ 2019 اور 2020 کے لیے متاثرین کی بحالی اور ان کو مدد فراہم کرنے والی تنظیموں کے لیے 70 لاکھ پاؤنڈز مختص کیے تھے۔
ایک ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’ہوم آفس بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور اس قابل نفرت سلوک سے نمٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘
’یہی وجہ ہے کہ ہم نے بچوں سے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے آزادانہ تحقیقات کا آغاز کیا تاکہ سچائی تک پہنچنے، حکام سے ہونے والی غلطیوں کو بے نقاب کرنے اور مستقبل کے لیے سبق سیکھا جا سکے۔ انکوائری حکومت سے آزادانہ طور پر چلتی ہے اور یہ خود فیصلہ کرتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا: ’انکوائری میں بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں اداروں کے ردعمل کی تحقیقات کی جارہی ہیں جن کی عوامی سطح پر سماعت 2020 کے موسم بہار میں ہوگی۔‘
ایک مشترکہ بیان میں لنکاشائر پولیس اور کاؤنٹی کونسل نے کہا کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے بارے میں ’مطمئن‘ نہیں۔
ایک ترجمان نے مزید کہا: ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کاؤنٹی کے کچھ علاقوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے اور ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ بچوں کی حفاظت، بچوں کے ساتھ بدسلوکی روکنے، متاثرین کی مدد اور مجرموں کو پکڑنے کے لیے کام کرتے رہیں گے تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘
برمنگھم چلڈرن ٹرسٹ نے کہا کہ وہ پولیس، این ایچ ایس، سکولوں اور شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ خطرے سے دوچار نوجوانوں کی شناخت کو بہتر بنایا جاسکے۔
گلوسٹر شائر کاؤنٹی کونسل نے کہا کہ بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں شعور میں اضافے سے متاثرہ بچوں کی شناخت میں مدد ملی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم پولیس اور سکولوں سمیت دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے تاکہ اس کی روک تھام اور متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی مدد کی جاسکے۔‘
بریڈ فورڈ کونسل نے کہا کہ گرومنگ کے خطرے سے دوچار بچوں کی تعداد اب کم ہوتی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم بچوں کے جنسی استحصال کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اس خوف ناک جرم سے آگاہی کے لیے نوجوانوں، سکولوں اور کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
© The Independent