طالبان کی حکمران کونسل کی جانب سے افغانستان میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق کی خبروں کے بعد اب طالبان کی طرف سے اس کی تردید سامنے آ گئی ہے۔
قطر میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جنگ بندی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا ’افواہوں‘ کو شائع نہ کرے۔
طلوع نیوز کے مطابق طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ قائدین کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کا اعلان کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ واشنگٹن نے کسی بھی امن معاہدے پر دستخط سے قبل جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ معاہدے کے ذریعے امریکی فوجی 18 سال بعد پہلی مرتبہ افغانستان چھوڑ سکیں گے۔
اس وقت افغانستان میں 12 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ امن معاہدے میں طالبان یہ بھی وعدہ کریں کہ وہ افغانستان کو کسی دہشت گرد گروپ کی پناہ گاہ یا اڈہ نہیں بننے دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان کی اعلان کردہ جنگ بندی کی مدت کا تعین تو نہیں، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ 10 روزہ ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب تاحال اس اعلان کی منظوری طالبان سربراہ کی جانب سے سامنے نہیں آئی ہے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس کی منظوری دے دیں گے۔
طالبان کی چار رکنی مذاکراتی ٹیم نے حکمران کونسل سے ایک ہفتے تک مشاورت کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا۔
مذاکراتی ٹیم اتوار کو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر پہنچ گئی، جہاں وہ اور امریکہ کے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد ستمبر، 2018 سے امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بی بی سی کی حالیہ رپورٹ میں افغانستان کو دنیا کا سب سے ہولناک تنازعہ قرار دیا گیا ہے۔
تاہم ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد جب دونوں فریقین میں معاہدہ تقریباً طے پا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل میں ایک بم دھماکے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد ستمبر میں اچانک مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
بعد ازاں ٹرمپ نے تھینکس گیونگ کے موقعے پر اچانگ بگرام ایئر بیس کا دورہ کرتے ہوئے صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔
28 نومبر کو ہونے والی اس ملاقات میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ’طالبان معاہدے کے خواہش مند ہیں اور ہم ان سے مل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی ضروری ہے، لیکن وہ جنگ بندی نہیں چاہتے اور اب وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں بات بن جائے گی۔‘
© The Independent