بغداد میں امریکی سفارت خانے پر عراقی مظاہرین کے حملے کے بعد امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) نے 750 اضافی فوجی فوری طور پر عراق روانہ کر دیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ایک بیان میں اس پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پینٹاگون کو فوری طور پر 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کی امیجیٹ رسپانس فورس کی انفینٹری بٹالین کی تعیناتی کا اختیار دیا تھا۔
وزیر دفاع مارک ایسپر کا مزید کہنا تھا کہ اس ہنگامی تعیناتی کے علاوہ امیجیٹ رسپانس فورس کے اضافی دستوں کو آئندہ چند روز میں مشرق وسطیٰ بھیجنے کی تیاری کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ریپیڈ رسپانس فورس کے دستے بغداد کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے موقع پر اپنے پیغام میں ایران کو خبردار کیا کہ اگر کوئی امریکی ہلاک ہوا تو تہران کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔
اپنی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا: ’انسانی زندگیوں کے ضیاع یا ہماری کسی عمارت کو پہنچنے والے کسی بھی قسم کے نقصان کا ایران کو پوری طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’ان کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ یہ دھمکی نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ نیا سال مبارک ہو۔‘
....Iran will be held fully responsible for lives lost, or damage incurred, at any of our facilities. They will pay a very BIG PRICE! This is not a Warning, it is a Threat. Happy New Year!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) December 31, 2019
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے پہلے بھی بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے عراقی حکومت سے امریکی سفارت خانے کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے منگل کی صبح ایک ٹویٹ میں کہا: ’ایران نے جب ہمارے ایک کنٹریکٹر کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا تو ہم نے اس کا بھرپور جواب دیا اور ہم آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ اب ایران، عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی ہدایات دے رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’ایران کو اس حملے کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ مزید برآں ہم امید کرتے ہیں کہ عراق ہمارے سفارت خانے کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا۔ ہم نے انہیں آگاہ کر دیا ہے۔‘
امریکہ کی جانب سے شیعہ ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے خلاف عراقی مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے بعد امریکی سفیر سمیت سفارت خانے کے دیگر عملے کے ارکان کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
عراقی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہزاروں مظاہرین اور ایک مبینہ طور پر ایران نواز جنگجو تنظیم کے ارکان نے منگل کو بغداد کے سب سے محفوظ علاقے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا۔
مظاہرین حفاظتی رکاوٹیں پھلانگتے ہوئے سفارت خانے کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے اور دروازے کو توڑ ڈالا، جہاں انہوں نے سفارت خانے کی عمارت پر پتھراؤ کیا اور پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں۔
شیعہ ملیشیا کی وردی میں ملبوس مظاہرین سفارت خانے کی راہداری میں تقریباً 16 فٹ اندر گھس آنے کے بعد اس وقت رک گئے جب وہ سفارت خانے کی مرکزی عمارت سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر تھے۔ عمارت کی چھت پر نصف درجن فوجیوں نے بندوقیں مظاہرین کی جانب تان رکھی تھیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق عراقی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی جو قلعہ بند گرین زون کی طرف جانے والے راستے پر کئی چوکیوں سے گزرے۔
سفارت خانے میں داخل ہونے کے لیے مظاہرین نے کاروں کے ذریعے مرکزی دروازہ توڑ ڈالا، جس کے بعد مظاہرین کی بڑی تعداد سفارت خانے کے احاطے میں داخل ہو گئی، جنہوں نے سفارت خانے میں نصب سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
عراقی وزارت خارجہ کے حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بے قابو مظاہرین کے حملے کے بعد امریکی سفیر سمیت سفارت خانے کے عملے کے دیگر ارکان کو عمارت سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ عراقی حکام کے مطابق سفارت خانے میں اب چند امریکی سکیورٹی اہلکار ہی موجود ہیں۔
دوسری جانب اے پی کے مطابق مشتعل مظاہرین کا جلد احتجاج ختم کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دے رہا، جنہوں نے علاقے میں خیمے نصب کر لیے ہیں۔
اس دوران مظاہرین، جہنوں نے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، امریکہ مخالف نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین نے سپرے پینٹ کے ذریعے امریکی سفارت خانے کی دیواروں اور شیشے کی کھڑکیوں پر ’کتائب حزب اللہ‘ کی حمایت میں نعرے بھی تحریر کیے۔
اے پی کے مطابق منگل کو سوگواروں اور شیعہ ملیشیا کے حامیوں کی بڑی تعداد نے بغداد کے ایک اور علاقے میں امریکی فضائی کارروائی میں مارے جانے والے جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کی جس کے بعد وہ قلعہ بند علاقے گرین زون کی طرف روانہ ہوئے اور تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے امریکی سفارت خانے تک پہنچ گئے۔
اس موقع پر سکیورٹی گارڈز سفارت خانے کے اندر کی طرف پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کے خلاف کارروائی اتحادی افواج پر حالیہ حملوں کے جواب میں کی گئی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق اتوار کو ہونے والے فضائی حملے سے یہ پیغام دیا گیا کہ امریکی شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والے ایران کے اقدامات کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
امریکی فورسز نے اتوار کو عراق اور شام کی سرحد کے قریب کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔
اس سے قبل 27 دسمبر کو عراقی شہر کرکوک میں واقع امریکی فوجی اڈے پر حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک اور متعدد امریکی فوجی اور عراقی اہلکار زخمی ہو گئے تھے امریکہ نے اس حملے کا الزام کتائب حزب اللہ پر عائد کیا تھا۔