سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں جمعرات کو تین منزلہ عمارت گرنے سے ایک عورت سمیت تین افراد ہلاک جبکہ ایک عورت اور دو بچوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
کمشنر سکھر شفیق مہیسر نے ملبہ ہٹانے کے لیے پاکستان فوج سے مدد طلب کرلی۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا: ’عمارت میں ایک ہی خاندان مقیم تھا۔ عمارت آر سی سی تھی لہٰذا ملبہ فوری طور پر ہٹانا ممکن نہیں۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نااہلی کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ عمارت سکھر شہر کے مرکزی علاقے گھنٹہ گھر کے نزدیک حسینی روڈ پر واقع تھی۔
مقامی صحافی ممتاز بخاری کے مطابق جائے حادثہ پرموجود ہجوم ہٹانے کے لیے رینجرز کو بلایا گیا ہے جبکہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کر رہے ہیں۔
میئر سکھر ارسلان اسلم شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حادثے کے وقت عمارت میں کتنے افراد موجود تھے، یہ بتانا قبل از وقت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث ریسکیو میں مشکلات کا سامنا ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ایک ہفتہ قبل کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کی سومرا گلی میں چھ منزلہ عمارت ایک طرف جھک گئی تھی جس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حکام نے عمارت گرنے سے قبل اسے بروقت مکینوں سے خالی کروا لیا تھا۔
20 جون، 2019 کو سپریم کورٹ میں سکھر پریس کلب کی عمارت کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ سکھر شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، گرم ترین شہر کے باجود عوام کثیرمنزلہ عمارتوں میں کیسے رہتے ہیں، جہاں نہ بجلی ہے اور نہ پانی۔
انھوں نے مئیر سکھر سے پوچھا تھا کہ شہر میں موجود کثیرمنزلہ عمارتوں کو گرا کیوں نہیں دیا جاتا؟
ارسلان اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھیں سپریم کورٹ سے کثیرمنزلہ عمارتوں کے حوالے سے احکامات ملے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں خط و کتابت بھی کی۔ ’بہت جلد ڈویژن سطح پر ایک کمیٹی بنے گی جس کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا۔‘