پاکستان اور چین کے تعاون سے بننے والی ملتان سکھر موٹر وے (ایم 5) پر خوفناک حادثات قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے دوران اب تک 18 چھوٹے بڑے حادثات میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حادثات کی وجہ موٹر وے کے 392 کلومیٹر طویل حصے پر سروس ایریاز بند رکھنے، باڑ نہ ہونے پر جانوروں کا داخل ہونا اور حد سے زیادہ رفتار بتائی جاتی ہے۔
این ایچ اے کی جانب سے متعدد بار سروس ایریاز کے ٹھیکے دینے کا ٹینڈر ہونے کے باوجود یہ مسافروں کے لیے نہیں کھولے جا سکے۔ موٹر وے پولیس کی جانب سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) حکام کو خط بھی لکھا گیا ہے جس میں سروس ایریاز اور انٹر چینجز کو فوری فعال کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
افتتاح کے باوجود موٹروے کا سفر محفوظ کیوں نہیں بن سکا؟
این ایچ اے کے ایک ذمہ دار افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ایجنڈے سے ہٹ کر اچانک فیصلہ کیا گیا کہ ملتان تا سکھر موٹروے ایم 5 کو فوری کھول دیا جائے۔ حالانکہ اجلاس میں موجود اس منصوبے کے متعلقہ افسران نے تحفظات سے آگاہ کیا تھا کہ ابھی سروس ایریاز، موٹر وے پولیس اور انٹر چینجز کا نظام مکمل تیار نہیں ہے، لیکن حکم دیا گیا کہ یہ سیکشن فوری کھول دیا جائے، لہذا اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سیکشن پر سروس ایریاز اور انٹر چینجز کی تعمیر تو ہو چکی ہے لیکن وہاں عملہ تعینات نہیں۔ اس مقصد کے لیے تین بار محکمہ ٹینڈر بھی دے چکا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ ’ٹینڈر منظور ہونے پر کمپنی کے ملازمین کو تربیت بھی درکار ہوگی جبکہ اس سیکشن پر ڈیوٹی کے لیے ابھی موٹروے پولیس کے اہلکاروں کو بھی تربیت دینا باقی ہے۔‘
ان کے مطابق اس طویل سیکشن پر قانون کے مطابق ذمہ داریاں بھی پوری طرح تفویض نہیں ہو سکیں۔ این ایچ اے ملتان تا سکھر سیکشن کے جنرل مینیجر نسیم عارف کی جانب سے افتتاح کے تین روز بعد آٹھ نومبر کو ہیڈ آفس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ اس سیکشن پر فائر فائٹنگ سروس، موٹر کی صفائی، ریسکیو سروسز، موبائل ورکشاپ، آپریشن مینجمنٹ، حادثات میں مدد کے لیے ٹیم کا فوری انتظام کیا جائے لیکن اس خط کے جواب میں اقدامات کا آغاز ابھی تک نہیں ہو سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیکشن مینیجر نسیم عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ملتان سکھرموٹر وے پر آئے روز گاڑیوں کے ٹکرانے اور الٹنے جیسے خطرناک حادثات پیش آ رہے ہیں، جس کی ایک وجہ نظام کا مکمل فعال نہ ہونا ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ تیز رفتاری بھی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ تیز رفتاری پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس طویل سیکشن پر موٹر وے پولیس اہلکار پوری تعداد میں موجود نہیں، دوسرا وہ اوور سپیڈنگ کے کیمروں سے گاڑیوں کو پکڑنے میں مہارت بھی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی تربیت ہونا ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ سروس ایریاز فعال نہ ہونے کی وجہ سے طویل سفر کے دوران ڈرائیور سو جاتے ہیں جس سے حادثات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض مقامات پر جنگلے لگنا باقی ہیں، وہاں سے قریبی آبادیوں سے بعض اوقات جانور سڑک پر نکل آتے ہیں، وہ بھی حادثات کا موجب بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کیمروں سے مانیٹر ہونے والی گاڑیوں میں سے 25 سے 30 فیصد گاڑیوں کی رفتار 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ ریکارڈ ہوئی لیکن نظام موثر نہ ہونے پر خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے نہیں ہو سکے۔
لاہور سے سکھر موٹروے کا جدید ترین نظام؟
وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کئی مقامات پر اپنےخطاب کے دوران کہہ چکے ہیں کہ لاہور سے سکھر تک موٹروے کا نظام پاکستان کے دوسرے موٹروے سیکشنز سے جدید ترین ہوگا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے رکن ایڈمنسٹریشن کیپٹن (ر) مشتاق احمد کے مطابق انٹیلی جنٹ ٹرانسپورٹیشن سسٹم پورے ملک میں نافذ کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے جس سے ملک بھر میں ٹریفک کے مسائل کا جدید ٹیکنالوجی سے حل کیا جائے گا۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کے زیرانتظام 12 ہزار کلومیٹر سے زائد موٹر ویز اور ہائی ویز ہیں جب کہ آئندہ تین سالوں میں 12 سو کلومیٹر موٹر ویز کا اضافہ ہو جائے گا۔ ملک بھر میں ٹریفک حادثات کی روک تھام اور سفر کو محفوظ ترین بنانے کے لیے پاکستان نے عالمی معیار کے انٹیلی جنٹ ٹرانسپورٹیشن سسٹم کو متعارف کرا دیا ہے۔ اس نظام کی تنصیب لاہور عبدالحکیم موٹروے اور 392 کلومیٹر طویل سکھر ملتان موٹروے پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس کے نفاذ سے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان بھی جدید ترین موٹر ویز رکھنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور عبدالحکیم موٹروے اور ملتان سکھر موٹروے پر اس سسٹم کی تنصیب کا کام مئی 2016 میں موٹروے کی تعمیر کے ساتھ ہی چین کے تعاون سے شروع کر دیا گیا تھا اور رواں برس یہ سسٹم اپنا کام شروع کر دے گا، لیکن اس نظام کے مکمل متحرک ہونے تک موٹر وے پر روایتی مشکلات مکمل ختم نہیں ہو سکتیں۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے سابقہ دور حکومت میں شروع ہونے والے دیگر سیکشن جن میں فیصل آباد سے عبدالحکیم، لاہور سے عبدالحکیم اور خانیوال، ملتان سے سکھر اور چند روز پہلے وزیر اعظم کی جانب سے ہزارہ موٹر وے اور اس سے پہلے سوات موٹروے کے افتتاح کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن ان سیکشنز پر مکمل نظام کی بحالی ہونا ابھی باقی ہے، جبکہ لاہور سے سیالکوٹ موٹر وے ابتدائی سول ورک کی تکمیل بھی قریب ہی ہے۔