لندن میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق مردوں کی بڑی تعداد اس چیز پر یقین رکھتی ہےکہ نامناسب یا ناکافی لباس خواتین کے ریپ کی وجہ بنتا ہے۔
ان لوگوں کے مطابق وہ خواتین جو ایسے کپڑے پہنتی ہیں کہ جس میں سےان کا جسم دکھائی دے، وہ جنسی ہراسا نی کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔
دی انڈیپنڈنٹ کی طرف سے کیے گئے اس سروے کے مطابق 55 فیصد مرد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک خاتون کے کپڑے جس قدر مختصر ہوں گے، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ انہیں جنسی ہراسانی کا شکار بنایا جائے گا۔
اس ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواتین کی نسبت مرد حضرات اس نظریے کو زیادہ فروغ دیتے ہیں۔
اس نظریے کی حمایت میں بولنے والی خواتین 41 فیصد تھیں جبکہ مردوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی۔
یہ تحقیق 1104 بالغان پہ کی گئی اور اس پر انگلینڈ کی آبادی کے نمائندہ ہونے کا قیاس کیاگیا۔
ڈبلنگ ریپ کرائسز سینٹر کے مطابق یہ تحقیق اس چیز پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اس معاشرے میں نشانہ بنایا جاتا ہے اور سارا الزام بھی انہی پر لگایا جاتا ہے۔
اس ادارے کی سربراہ نیولین بلیک ویل کے مطابق یہ محض ایک خام خیالی ہے اور اس بات کا عملی ثبوت کوئی نہیں ہے کہ خواتین کے لباس کا تعلق ان کے ریپ ہونے کے رجحان سے ہوتا ہے۔
'ہم جانتے ہیں کہ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین ہمیشہ ایک جیسے کپڑے نہیں پہنے ہوتیں۔ یہ خیال کہ بہت سے کپڑوں میں لپٹی ہوئی خاتون جنسی ہراسانی کا شکار نہیں ہوں گی، یہ صدیوں پرانی فلسفہ ہے جو نسل در نسل چلا رہا ہے۔ خواتین جب زیادتی کا شکار ہوئیں تو ان میں سے بہت سے ایسی تھیں جنہوں نے جینز پہنی ہوئی تھی یا وہ اپنے اسکول یونیفارم میں تھیں، حتی کہ وہ اپنے سونے کے کپڑوں میں بھی ملبوس تھیں'۔
انہوں نے مزید کہا، 'ہم زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون پہ ہی الزام لگادیتے ہیں۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کچھ کر لیتی تو آپ بچ سکتی تھی، ویسا کچھ کر لیتیں تو شاید یہ نہ ہوتا۔ یہ بہت پرانے وقتوں سے ہوتا چلا رہا ہے ، جیسے کہ بائبل میں آدم نے خدا سے کہا تھا، عورت نے مجھے اکسایا'۔
کرائسز سینٹر کے مطابق ریپ ایک جبری اور طاقتور کے غلبے کا عمل ہوتا ہے۔ اس میں کسی بھی شکار ہونے والے کا خوبصورت ہونا یا اس کا لباس بہت کم اہمیت رکھتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق45فیصدریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے مجرم اکثر ان کے قریبی ساتھی تھے یا کسی زمانے میں ان کے دوست رہ چکے تھے۔
برطانیہ کے سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق 38 فیصد کیسز میں جرم کرنے والے ایسے لوگ تھے جو ان کے خاندان میں شامل تھے اورصرف 13 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہوں نے ریپ کرنے والے کو شناخت نہ کرتے ہوئے اجنبی رپورٹ کیا تھا۔
ڈرہم یونیورسٹی کی ڈاکٹر ہانہ باؤذ کے مطابق یہ بہت مایوس کن صورتحال ہے ۔ اس بارے میں آگہی پھیلانے کی تمام مہموں کے باوجود سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے جیسے صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
'میں بہت پریشان ہوں کہ ہم نے اس معاملے میں زیادہ ترقی نہیں کی۔ معاشرے میں ہمیشہ ایک ایسا مخصوص طبقہ ہوتا ہے جسے عام طور پہ صورتحال کا اندازہ ٹھیک سے نہیں ہوتا۔ لیکن مجھے امید تھی کہ اب تک صورت حال بہت بہتر ہوچکی ہوگی۔ یہ تحقیق ہمارے تصورات کی ایک بہت ہی بنیادی غلطی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ حیاتیاتی جبلت کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک بہت ہی بنیادی مسئلہ ہے جس میں زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین ہی پر سارا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر اپنے گھروں کے اندر محفوظ ماحول میں زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ آپ نے کیا پہنا ہے اس بات سے ریپ کرنے والے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اعداد و شمار کے مطابق انگلستان میں سال 2018 کے درمیان ریپ کیسز میں واضح کمی دیکھی گئی لیکن اس کے برعکس ریپ ہو نے والی خواتین کے علاج معالجے کے لیے سہولیات کی فراہمی کابجٹ مسلسل کمی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے۔