جمعے کو عراق میں ہونے والے امریکی حملے میں ایران کے مرکزی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر سے آنے والے ردعمل میں گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
عالمی رہنماؤں کی جانب سے فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔
امریکی حکمران جماعت رپبلکن پارٹی کے ارکان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے لیکن باقی افراد کی جانب سے تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہ اقدام خطے میں جاری کشیدہ صورت حال میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی رہنماؤں کی جانب سے جو رد عمل دیا گیا وہ کچھ یوں ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے رپبلکن رکن کیون میکارتھی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ اپنے عزم اور طاقت کے اظہار کے طور پر ہم نے ان کے سربراہ کو نشانہ بنایا ہے جو امریکی خودمختار علاقے پر حملہ آور تھے۔‘
صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی لنزی گریم نے ٹویٹر پر لکھا ’ واہ، امریکیوں کو قتل کرنے اور زخمی کرنے کی قیمت یک لخت بہت بڑھ چکی ہے۔‘
ادھر ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے ایک بیان میں کہا کہ ’سلیمانی کی ہلاکت تشدد کی لہر میں خطرناک اضافے کا باعث بنے گی۔ امریکہ اور پوری دنیا کشیدگی کی ناقابل واپسی سطح تک جانے کا متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
دوسری جانب روسی خبر رساں ایجنسیوں ریا نووستی اور تاس کے مطابق روسی وزات خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ سلیمانی کی ہلاکت ایک پرخطر اقدام ہے جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔ سلیمانی ایران کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے ۔ ہم ایرانی قوم سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔‘
امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائڈن نے ایک بیان میں کہا کہ ’صدر ٹرمپ نے بارود کے ڈھیر کو ماچس کی تیلی دکھا دی ہے۔ ایران اس کا جواب دے گا۔ ہم مشرق وسطی میں ایک اور بڑے تنازعے کے دہانے پر ہیں۔‘
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’چین عالمی تعلقات میں طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم متعلقہ اطراف پر زور دیتے ہیں کہ خاص طور پر امریکہ پر کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے تاکہ مزید کشیدگی سے بچا جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عراق کی علاقائی سالمیت، آزادی اور خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن چین ایران سے تیل خریدنے والے بڑے خریداروں میں شامل ہے۔
عراق کے نگران وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے مطابق امریکی حملے جس میں ایک عراقی کماندڑ کو بھی نشانہ بنایا گیا ایک ’جارحیت‘ تھی جو کہ ایک ’ تباہ کن جنگ چھیڑنے کی وجہ بن سکتا ہے۔‘
ان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے میں عراق کے فوجی کمانڈر کی ہلاکت جو کہ سرکاری عہدے پر فائز تھے عراق، ریاست عراق، عراقی حکومت اور عوام کے خلاف جارحیت ہے۔‘
عبدالمہدی کے مطابق یہ حملہ عراقی سر زمین پر امریکی فوج کی موجودگی کی شرائط کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ٹوئٹر پر لکھا، ’شہادت ان کی لازوال خدمات کا انعام ہے۔ ان کے جانے کے بعد خدا کی مرضی سے ان کا کام جاری رہے گا لیکن گذشتہ رات ان کے اور باقی شہدا کے خون سے ہاتھ رنگنے والے مجرموں سے سخت انتقام لیا جائے گا۔‘ انہوں نے ایران میں تین روزہ قومی سوگ کا اعلان بھی کیا۔
خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو ’مزاحمت کا بین الاقوامی چہرہ ‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیمانی کو ’دنیا کے سب سے بڑے ظالم‘ نے قتل کیا ہے اور وہ تمام لوگ جو مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں وہ ان کا ’انتقام لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پیارے اور مخلص جنرل کی کمی یقینی طور پر مشکل ہے لیکن ان کی جنگ کو جاری رکھنا اور آخری جیت کو حاصل کرنا ان کے قاتلوں اور مجرموں کے لیے مزید زیادہ مشکل ہو گی۔‘
فرانس کے امور برائے یورپ کے وزیر امیلی دی مونٹچالن نے فرنچ ریڈیو کو بتایا کہ فرانسیسی صدر ایمونول میکروں خطے میں موجود ممالک سے اس سلسلے میں مشاورت کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دیکھا گیا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ استحکام اور کشیدگی میں کمی لائے جائے۔ فرانس کی تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ دنیا کے تمام خطوں میں امن و استحکام کے حالات پیدا کیے جائیں۔ ہم کسی فریق کی طرف داری کے بجائے سب سے بات کریں گے۔
شامی حکومت نے امریکہ پر خطے میں تنازعوں کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
شامی سرکاری خبر رساں ایجنسی صنعا کے مطابق شامی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’ شام کو یقین ہے کہ امریکہ کی یہ بزدلانہ جارحیت شہید رہنماؤں کے راستے پر چلنے اور مزاحمت کے عزم کو مضبوط کرے گی۔‘
مہینوں سے عراقی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے عراقی مظاہرین کو گروہ کو امریکی حملے کے بعد ناچتے گاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تحریک کے گڑھ تحریر سکوائر میں ’قاسم سلیمانی، یہ جیت ہے‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔
مظاہرین میں سے ایک فرد کا کہنا تھا کہ ’یہ خدا کا انتقام ہے ان لوگوں کے خون کے بدلے جو قتل ہو چکے ہیں۔‘ عراق میں ہونے والے مظاہروں میں ایرانی حمایت یافتہ سیکورٹی فورسز نے چار سو 60 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
عراق کے سب سے بڑے شیعہ رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد تمام فریقین سے تحمل کے مظاہرے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’گذشتہ رات بغداد ہوائی اڈے کے قریب ہونے والا حملہ عراق کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ اس حملے میں داعش کو شکست دینے والے کئی کمانڈر ہلاک ہوئے ہیں۔ ہمارا ملک بہت خطرناک حالات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برداشت اور سمجھداری سے کام لیں۔‘