غلام محی الدین اپنے چودہ سالہ بیٹے کو یاد کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس لیتے ہیں جو موسم بہار کے دوران بامیان کے پہاڑوں میں گذشتہ صدی کے دوران پھینکے گئے بم کا نشانہ بن گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے محی الدین کہتے ہیں ’ہم جانتے تھے کہ یہ پہاڑ بہت خطرناک ہیں۔‘ انہیں اپنے بیٹے کی لاش اس کے گھر واپس نہ آنے کے اگلے دن ملی تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں ’ہم وہاں بارودی سرنگوں کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن ہم انہیں تلاش نہ کر سکے۔ وہ بارش کے بعد نرم مٹی میں دب گئے تھے۔‘
افغانستان پر روس کے حملے کے سالوں بعد اور جنگ ختم ہونے کے تین دہائیاں بعد ابھی تک اس جنگ کے اثرات ملک میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
محی الدین کے بیٹے مجتبیٰ 17 مئی کو اپنے دو دوستوں، جن کی عمر 12 اور 14 سال تھی، کے ساتھ کھیلتے ہوئے برف پوش پہاڑوں پر ایک بم کا نشانہ بن گئے۔ جب وہ تینوں اگلے دن واپس نہیں آئے تو محی الدین اور ان کے چھوٹے سے گاؤں آہنگران کے رہائشیوں نے ان کی تلاش شروع کر دی۔
محی الدین کا کہنا ہے کہہ ’مجھے اپنے بیٹے کی باقیات میں صرف سینہ اور سر ملا۔‘
مجتبیٰ اور اس کے دوست جس بم کا نشانہ بنے اسے اے او 2.5 آر ٹی ایم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی افواج کی جانب سے کلسٹر بموں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا تھا۔ دسمبر 1979 کے حملے میں ان بموں کو ایسے برسایا گیا جیسے بارش کے قطرے برستے ہوں۔
44 سالہ محی الدین کو یہ جنگ بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ جنگجو مجاہدین کے لیے چائے لاتے تھے جو سوویت فوجیوں پر حملہ کرنے کے لیے قریبی پہاڑوں میں چھپے ہوتے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں شام میں بھی کلسٹر بموں کا استعمال کیا گیا ہے۔
ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ڈی مائننگ گروپ (ڈی ڈی جی) کے سربراہ بشیر احمد کہتے ہیں ’یہ بم بہت خطرناک اور ارتعاش کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔‘
1980 کی دہائی کا میدان جنگ:
انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیم کئی افغان صوبوں میں 1999 سے کام کر رہی ہے تاکہ وہاں جنگ کے دوران پھینکے جانے والے ان پھٹے بموں کو ہٹایا جا سکے۔ افغانستان کی زیادہ تر نوجوان آبادی اس جنگ سے آشنا نہیں ہے۔
بامیان کے پہاڑ جب چھٹی صدر کے بدھا کے عظیم مجسموں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ مجسمے طالبان نے تباہ کر دیے تھے۔ یہ پہاڑ بارودی سرنگوں اور ان پھٹے بموں سے بھرے پڑے ہیں۔
جس علاقے میں مجتبیٰ بم دھماکے میں ہلاک ہوئے یہ اس جگہ کے قریب ہی واقع ہے جس کو ڈی ڈی جی کے ارکان نے سفید قطاریں لگا کہ اس علاقے کو محفوظ قرار دے رکھا ہے۔
ڈی ڈی جی کے صوبائی سربراہ حبیب نور کہتے ہیں ’یہ بامیان کا آخری میدان جنگ ہے جسے ہم صاف کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ 1986 سے جاری ہے۔‘
بامیان کے علاقے میں شیعہ ہزارہ برادری کی اکثریت ہے اور یہ افغانستان میں جاری تشدد کی لہر سے نسبتاً محفوظ علاقہ ہے۔ یہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے پہلا صوبہ ہو گا جہاں بارودی مواد کی موجودگی والے علاقوں کو صاف قرار دیا جائے گا۔
ڈی ڈی جی کو آہنگران کے علاقے کے قریب 26 بارودی سرنگیں ملی ہیں۔
حبیب نور کہتے ہیں ’ہم نے لوگوں سے مدد لے کر اس علاقے کو کھنگالا ہے۔ ہم نے مقامی افراد سے مدد لی ہے جو اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔‘
ایک مشکل کام:
اے ایف پی کی ٹیم نے آہنگران کے قریب موجود علاقے کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ نیلے آسمان کے تلے بارودی مواد ہٹانے میں مصروف ٹیم اور ڈاکٹر بھی موجود تھے۔
آٹھ افراد پر مشتمل یہ ٹیم ہلکے نیلے رنگ کے بم پروف لباس میں ملبوس تھی۔ وہاں موجودگی گہری خاموشی میں صرف کوؤں کی کائیں کائیں اور میٹل ڈی ٹیکٹرز کی ٹیں ٹیں سنی جا سکتی تھی۔
26 سالہ زرقا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا پہلا کلسٹر بم کچھ دن پہلے کی تلاش کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں بہت خوفزدہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کی ٹیم نے بہت احتیاط سے بارودی سرنگ کے گرد موجود جگہ کو کھودا اور ایک کنٹرولڈ دھماکے میں اسے تباہ کر دیا۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جنگ کے دوران پھینکے جانے والے ان پھٹے بموں نے گذشتہ سال افغانستان میں 13 سو 91 شہریوں کو نشانہ بنایا۔ متاثرین میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے۔
ڈی ڈی جی کابل کے چیف عبدالحکیم نور زئی کا کہنا ہے کہ ’یہ بارودی مواد ابھی بھی قابل استعمال ہے۔پلاسٹک اور دھات وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے لیکن بارودی مواد باقی رہتا ہے۔‘
ڈی مائننگ ٹیم کے سربراہ احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کی تباہی پر وہ شدید افسردہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہماری زندگی تباہ کر دی۔ ان کی وجہ سے ہم ڈاکٹر یا انجنئیر اور استاد بننے کے بجائے بارودی مواد ہٹا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ 2003 سے یہ تھکا دینے والا مشکل ترین کام کر رہے ہیں۔
پہاڑوں سے نیچے آتے ہوئے اس ٹیم کو گاؤں کے چھوٹے سے سکول کے باہر بچوں کا ایک گروہ کھیلتے ہوئے نظر آتا ہے۔
11 سالہ ناہیدہ شرمیلی سے مسکراہٹ سجائے اپنے سر کو سکارف سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہیں مجتبیٰ بہت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ کہتی ہیں ’وہ میرا کزن تھا۔ میں ان کے مرنے کا سن کر بہت روئی تھی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں جنگ کے بارے میں کچھ پتا ہے تو ان کا کہنا تھا مجھے نہیں معلوم یہ تمام بم کہاں سے آئے ہیں۔