ایک اور دہائی، ایک اور دوراہا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنیا بھر کے مستقبل کا انتہائی اہم اور کڑا فیصلہ ایک بار پھر پنڈی کے نصیب میں لکھا گیا ہے۔
1979 میں امریکا کو ’برائی کی قوتوں (افغان جنگ)‘ کو شکست دینے کے لیے پاکستان کا کندھا استعمال کرنا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے فیصلہ کیا اور آئندہ دو دہائیوں تک پاکستان اس کندھے کو کرائے پر دینے کے عوض نوجوان کندھوں پر سٹنگر میزائل اٹھانے کے بوجھ تلے دبا رہا۔
صرف یہی نہیں اُس جنگ کا خمیازہ پاکستان آج تک کسی نہ کسی صورت بھگت رہا ہے۔ دو دہائیوں بعد ’برائی کی نئی قوتوں‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کو 2001 میں ایک بار پھرپاکستان کے کندھے کی ضرورت پڑی۔
ایک فون کال آئی ۔ جنرل پرویز مشرف مملکتِ خداداد پاکستان کے مقتدر تھے۔ ایک بار پھر واحد فیصلہ ہوا۔ سرِ تسلیم خم ہوا اور پاکستان پھر ایک نئی جنگ کا حصہ بن گیا ،جس میں نہ ہم تین میں گردانے جاتے تھے نہ تیرہ میں۔ لیکن اس واحد فیصلے کی کرنی پاکستان نے ایسی بھری کہ جو سر خَم ہوا تھا اس نے کمر پر ایسا بوجھ لادا کہ وزن تلے دہری ہو گئی اور آج بھی اس کی چُک نکالی جا رہی ہے۔
دو دہائیوں کے ایک اور عرصے کے بعد ایک بار پھر امریکہ کو’برائی کی مزید نئی قوتوں‘سے لڑنا ہے اور پاکستان کا کندھا درکار ہے۔
ایک بار پھر فون کال آئی ہے لیکن پاکستان کا فیصلہ کیا ہے، تا حال واضح نہیں۔ نہ تو ایران افغانستان ہے، نہ جنرل قاسم سلیمانی کوئی اسامہ بن لادن اور نہ ہی ملکی یا عالمی حالات جنگ کے متحمل ہیں۔
کیا پاکستان ایک بار پھر 909 کلو میٹر طویل اپنی مغربی سرحد ، جو کہ پہلے ہی بحران کی زد میں رہتی ہے،کومزید غیر محفوظ بنانا افورڈ کر سکتا ہے؟
پاکستان ایران کا فلیش پوائنٹ بلوچستان ہے ،جو پاک چین سی پیک منصوبے کا گڑھ ہے۔ پاکستان کسی صورت مغربی سرحد پر کوئی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
حالات کی سنگینی کا تقاضاہے کہ معاملہ پارلیمان میں زیر بحث آئے۔ امریکا ایران کشیدگی میں پاکستان کیا کردار ادا کرے گا؟ امریکی وزیر خارجہ کی فون کال میں کیا امور زیر بحث آئے رہے؟ کیا خدانخواستہ پاکستان تیسری عالمی جنگ میں دھکیلا تو نہیں جائے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سب چیزیں پارلیمان میں بیٹھے نمائندوں کے ذریعے عوام کا جاننا اور شفاف طریقے سے علم ہونا ان کا حق ہے۔
تاحال دفتر خارجہ کے موقف کی بنیاد پر تو پاکستان امریکہ ایران بحران میں غیر جانبدار ہے لیکن اہم یہ ہے کہ پریس ریلیز کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ اور جنرل قمرجاوید باجوہ کی اہم ترین فون کال میں کیا گفتگو ہوئی ۔
اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا اہم بھی ہو گا اور مفید بھی۔ صدر ٹرمپ نے تو خود کواور دنیا کے امن کو اِس ایک کارروائی سے داؤ پر لگا دیا ہے۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ’ ورلڈ وار تھری‘ کا ٹرینڈ اِس کی ایک انتہائی معمولی سی جھلک ہے۔
امریکہ کے ساتھ تو خیر پاکستان کا ہمیشہ نشیب و فراز، محبت عداوت کا گھمبیر تعلق رہا ہے جس میں امریکہ کو درپیش ضرورت کے تحت پاکستان کو ہمیشہ وقتی مفاد ہی حاصل ہوا ہے۔
سعودی عرب سے البتہ ہمارا تعلق ایسا ہے جس کی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں۔ اس نئے تنازعے میں پاکستان کےلیے غیر جانبداری برقرار رکھنا کتنا بڑا چیلنج ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی لیبر طبقہ، پاکستان کے مشکل معاشی حالات، ڈالر اور تیل کی قیمت، سعودی عرب کی پاکستان سے کوالا لمپور سمٹ کے معاملے پر پہلے سے موجود ناراضی کا عنصر، یمن بحران میں غیر جانبدار رہنے کے اثرات، ایف اے ٹی ایف کے امڈتے گھمبیربادل، ایران کے ساتھ پہلے ہی معاملات کچھ بہت اچھے نہیں چل رہے۔
ایسے میں کوئی بھی واحد فیصلہ سازی پاکستان کے لیے ماضی کے تناظر میں انتہائی چیلنجنگ ہو سکتی ہے۔
پارلیمان کو اعتماد میں لینا اور بحث کے ذریعے قومی یکجہتی کی فضا میں لیا گیا فیصلہ اور تشکیل کردہ پالیسی موثر بھی رہے گی اور دیرپا بھی۔ حیرانگی تو اس بات پر بھی ہے کہ اس تحریر کے رقم کرنے تک اپوزیشن کے کسی رکنِ پارلیمان کی طرف سے امریکہ ایران بحران میں پاکستان کے کردار پر پارلیمان میں بحث کی بات تک نہیں کی گئی۔
ویسے بھی ایک ترمیم نے پہلے ہی اپوزیشن کو ایسا ذلیل کر رکھا ہے کہ سب اپنی اپنی لنگوٹی بچانے کے چکر میں ہیں۔ ترمیم کے معاملے پر تو اپوزیشن کا وہ حال ہے کہ بھرے بازار میں کسی دیہاتی کی تہہ بند کھل گئی مگر شرمندگی مٹانے کو بولنے لگا’کوئی گل نئیں، شکر ہے کرتا تے لما پایا سی‘، یعنی دھوتی کھل گئی لیکن کوئی بات نہیں، شکر ہے کرتا لمبا پہنا ہوا تھا۔
ترمیم کی حمایت سے سب کے انقلابی اور مزاحمتی بیانیوں کی دھوتی کھل گئی لیکن شکر ہے پارلیمانی قواعد و ضوابط کے کرتے نے ڈھانپ لیا۔
ن لیگ کے بیانیے کی تو وہ درگت بنی ہے کہ سٹپٹائی سی پھرتی ہے، کبھی اِدھر سر مارتی ہے کبھی اُدھر ٹکراتی ہے۔ نہ کوئی واضح وژن ہے نہ کوئی عمل۔ آدھی پارٹی مشرق میں، آدھی مغرب میں۔
آدھا تیتر آدھا بٹیر والا حال ہوا ہے ن لیگ کا۔ سرفروشی کی تمنا تو ہو سکتی ہے مگر مقتل جانے کی ہمت نہیں، لیکن امریکہ ایران کشیدگی میں اپوزیشن کو حکومت پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ جو پالیسی بھی بنائی جائے اس سے عوام کو اندھیرے میں نہ رکھا جائے۔
مشرقی سرحد پر پہلے ہی پاکستان لگاتار خطرے کا شکار ہے۔ انتہا پسند بھارتی سرکار کی پاکستان اور مسلم دشمنی ہر گزرتے دن نت نئے طریقے سے آشکار ہو رہی ہے۔
نئے بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکی نے مشرقی سرحد پر جنگ کے منڈلاتے خطرات کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ بھارت کا جو تعلق امریکہ اور ایران سے ہے وہ پاکستان کے تعلقات سے قطعی مختلف ہے اور ظاہر ہے ان کے اثرات بھی مختلف ہوں گے۔
تا دمِ تحریر ایران کی طرف سے امریکہ کے لیے مسلسل جارحانہ بیانات آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ شاید امریکہ ایران براہ راست جنگ نہ ہو لیکن یہ پراکسیز کے ذریعے جنگ میں بھی پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
جغرافیائی طور پر پاکستان مشرقِ وسطیٰ اور مرکزی ایشیا کے انتہائی اہم ترین اور سنگین جنکشن پر واقع ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی ہئیت بدلتی ہے تو بھی پاکستان براہ راست خطرے میں آ سکتا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی جگہ تعینات ہونے والے قدس فورس کے سربراہ جنرل اسماعیل غانی کے پاکستان کے بارے تاثرات کچھ زیادہ ڈھکے چھپے نہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کے پاکستان مخالف بیانات اگرچہ ریکارڈ پر ہیں، ان کی آپریشنل ذمہ داری اور توجہ مشرق وسطیٰ پر رہی۔
ان کے نائب کے طور پر جنرل اسماعیل غانی کی آپریشنل توجہ پاکستان اور افغانستان پر مرکوز تھی۔ یہ امر بھی باعثِ تشویش ہے کہ امریکہ۔ ایران بحران کے فوری بعد امریکہ نے تو پاکستان سے رابطہ کیا لیکن تا دمِ تحریر ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی بھی رابطہ نہیں ہوا۔
یہی وہ گھمبیر حالات اور معاملات ہیں کہ پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا اور ماضی کی دو جنگوں کا ہر اول دستہ بننے کے نتائج کو سامنے رکھ کر قومی یکجہتی کے ساتھ متفقہ موقف اور پالیسی اپنانا ہوگی۔