ندا یاسر گذشتہ 11 سالوں سے روزانہ اپنا مارننگ شو ٹی وی پر سجاتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ان سے پہلے اور بعد میں شروع ہونے والے مارننگ شو بند ہوگئے ان کا شو آج بھی اتنا ہی مقبول ہے۔
ندا نے اداکاری سے شوبز میں قدم رکھا تھا مگر اب مارننگ شو کی میزبانی ان کی پہچان بن گئی ہے۔
ندا نے انڈپینڈںٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں پچھلے کچھ عرصے سے مارننگ شوز کے متنازع بننے کے سوال پر کہا اس کی وجہ ان شوز کے درمیان شدید مقابلہ تھا مگر اس میں کمی آئی ہے اور اب کبھی کبھار ہی کوئی چیز متنازع ہوتی ہے۔
ندا کا کہنا ہے کہ مارننگ شوز والوں سے کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں تاہم سوشل میڈیا نے بھی کچھ زیادہ ہے ٹانگ کھینچنا شروع کردی ہے۔
دوسری جانب ندا کے مطابق شوز میں کچھ جہالت بھری چیزیں آ گئی تھیں جیسے جادو ٹونا، جنات وغیرہ یا پر بہت زیادہ شادی بیاہ وغیرہ جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔
حال ہی میں متعدد ٹی وی چینلز نے مارننگ شوز بند کیے ہیں، اس بارے میں ندا کا کہنا تھا کہ ایک ہی فارمولے کو گھستے رہنے سے لوگ بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں، باقی وہ رہ جاتا ہے جو زمانے کے حساب سے خود کو بدل لے۔
’کسی چیز کو طویل عرصے تک چلانے کے لیے اس میں مسلسل تبدیلی لاتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ندا کے مطابق ان کی ایک پوری ٹیم ہے جو مسلسل ان کا پروگرام تیار کرتی ہے اور اس میں چینل کی انتظامیہ کی مدد بھی شامل ہوتی ہے۔ ’اس وجہ سے اب تک وہ اپنا مارننگ شو چلا رہی ہیں اور وہ بھی ایسے دور میں جب ایک، دو کے سوا تمام مارننگ شو بند ہوگئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوا تھا، جس میں ندا اپنی بیرونِ ملک کی جانے والی شاپنگ دکھا رہی تھیں۔
اس پر سوشل میڈیا پر شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ندا نے واضح کیا کہ وہ کلپ ایک سال پرانا تھا۔
ندا کے مطابق جس وقت یہ کلپ بنا اس وقت وہ وائرل نہیں ہوا، اس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف کچھ لوگ سازش کررہے ہیں۔
’پیچھے دیکھو پیچھے‘ فیم ننھے بچے احمد شاہ کے معاملے پر خود پر ہونے والی تنقید کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو کلاس روم کا کلپ وائرل ہوا وہ اس بچے کی ٹیچر کی جانب سے ہوا تھا، اور اس کا غصہ ہی مشہور ہوا تھا۔
’میں نے صرف اسے بار بار کہا کہ پلیز کہو‘۔
ندا نے کہا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ گھروں میں تو کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ بدتمیزی نہیں سمجھی جاتی، اب اس بچے کے گھر میں ایسے بات کی جاتی ہے تو وہ کیا کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اب چونکہ زیادہ تر مارننگ شوز بند ہوچکے ہیں اس لیے ان پر دباؤ کم ہے۔ ’پہلے کسی دوسرے چینل پر شادی ویک ہوتا تھا تو مجھے بھی شادی ویک کرنا پڑتا تھا حالانکہ اس میں زیادہ محنت لگتی ہے اور خرچہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘
ندا کے مطابق ’تنقید کرنے والے تو صبح سو رہے ہوتے ہیں، وہ تو شو رات کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ ہونے پر دیکھتے ہیں اور شروع ہوجاتے ہیں، اس لیے مجھے ان سے ریٹنگ کی امید بھی نہیں ہوتی۔
ریٹنگ کے دباؤ کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہرحال یہ نجی ٹی وی چینل ہے جس کا پیٹ بھرنا ضروری ہوتا ہے تاہم اگر میں نے کل کو یہ چھوڑ دیا تو میں یہ نہیں کہوں گی کہ مجھ سے یہ سب زبردستی کروایا گیا تھا۔
ندا نے اپنے شوہر یاسر نواز کے ساتھ فلمیں بھی پروڈیوس کی تھیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف سرمایہ کاری کی مگر کام نہیں کیا تھا۔
حال ہی میں انہوں نے ندا یاسر کلیکشن کے نام سے آن لائن تیار شدہ کپڑوں کا کاروبار بھی شروع کیا ہے۔
اس بارے میں ندا نے مزید بتایا کہ وہ ڈیزائنر نہیں، وہ صرف مشورہ دیتی ہیں کیونکہ 11 سال مارننگ شو کرکے اب انہیں کپڑوں کی اچھی سمجھ بوجھ ہو گئی ہے۔
مارننگ شو میں اپنے مقابل سٹارز کے بارے میں بتایا کہ جب انہوں نے شو شروع کیا تھا تو اس وقت شائستہ لودھی اور مایا وغیرہ سب ہی تھے۔ ’یہ میری فطرت ہے کہ میں کبھی ضرورت سے زیادہ خود پر اعتماد نہیں رکھتی اس لیے میں سب سے ہی ڈرتی تھی۔‘
’جب تک دانہ پانی لکھا ہے تب تک میں مارننگ شو کروں گی ابھی ریٹائرمنٹ کے بارے میں نہیں سوچا جب بھی چھوڑا تو مکمل توجہ اپنے کپڑوں کے کاروبار پر دوں گی۔‘
اداکاری کے میدان میں واپسی پر ندا نے کہا کہ دل تو چاہتا ہے لیکن اب اتنی اچھی اور پیاری لڑکیاں آگئی ہیں تو وہ کریں مگر ممکن ہے کہ میری عمر کی مناسبت سے کوئی کردار نکلے تو میں کر بھی لوں کیونکہ شوق تو ہے نا!