یہ بات طے ہے کہ طے کچھ بھی نہیں ہے۔ جس بات کو آپ ٹھیک سمجھتے ہیں اسے اکثر کوئی اور غلط بھی سمجھتا ہے۔ جب سائنس تک میں کوئی چیز حتمی نہیں کہی جا سکتی تو پھر ادب میں ایسی حرکتوں پہ اصرار کرنا بھی کچھ مناسب بات نہیں ہے۔
شاعری کیا ہے اور شاعری کس کے لیے کی جاتی ہے؟ آپ کسی زبان کے بننے پہ غور کریں تو حیران کن طور پہ اس میں تصویروں کے بعد شاعری کا اگلا نمبر آئے گا اور نثر یعنی عام بول چال کی زبان بہت بعد کے زمانوں میں دریافت ہوتی دکھائی دے گی۔ تو یہ جو نظم یا غزل کہنا ہے یہ کچھ اردو والوں کا حصہ نہیں ہے یہ تو ایک قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ہم لوگ چونکہ عربی اور فارسی سے بہت زیادہ متاثر ہیں تو پہلے اس کی بات کر لیں۔
اسلام سے پہلے عربوں میں عکاظ کا میلہ ہوتا تھا جہاں دور دراز سے شاعر آ کر اپنا کلام سناتے تھے۔ وہ میلہ عین ویسا ہی تھا جیسا کوئی بھی عام میلہ ہو سکتا ہے، جس میں پھل فروٹ اور ضرورت کی چیزیں بھی ملتی ہیں اور جہاں گلوکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تو شاعری چونکہ وہاں عام لوگوں کے پسند کی چیز تھی اس لیے وہاں یہ مشاعرہ کیا جاتا تھا۔ اب جس شاعر کا کلام بہت زیادہ پسند کیا جاتا اسے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا۔ یہ بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ روایات کے مطابق یہ اعزاز سات سے دس شاعروں کے حصے میں آیا اور وہ شاعری معلقہ کہلاتی تھی۔ گویا سوشل میڈیا کی بجائے ان دنوں عام لوگوں تک کلام پہنچانے کی صورت یہ تھی۔
تو پھر کیا عربوں کے پاس کوئی نقاد تھا جو شاعروں کو سلیکٹ یا مسترد کرتا تھا یا عوام فیصلہ کرتے تھے؟ ان کی شاعری میں اب تو بیٹھ کر پروفیسر جتنے مرضی زاویے اور صحیح غلط کے معاملے نکال لیں، اس وقت جو لوگوں کو پسند ہوتا تھا وہی مشہور ہوا کرتا اور اس کے قبیلے والے اس پر فخر کیا کرتے۔
فارسی کے معاملے میں بھی شاعری کا نمونہ نثر سے پہلے ملتا ہے یعنی شاعری سب سے پہلے خیال کے اظہار کے لیے استعمال کی جاتی تھی؟ جب ایسا ہے تو کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ شاعری عوام کی چیز ہے؟ جب شاعری عوام کی چیز ہے تو جانان ہائے من اس کا فیصلہ عام لوگوں، غریب غربوں پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ وہ کسے پسند کریں اور کسے ناپسند کریں؟ اور اگر چھوڑنے کی مہربانی کریں تو ٹک ٹاک یا فیس بک یا کسی بھی ابلاغی میڈیم میں کیا برائی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری شاعری کا مزاج چونکہ ایران کے قریب ہے اور وہاں شاعری بادشاہوں کے دربار میں ہوا کرتی تھی تو اسی رویے نے اردو شاعری کو بھی اب تک لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ہر مشکل پسند بادشاہ بن گیا۔ لیکن، پھر اسی نظریے کو مشکل پسندوں کے امام غالب، ذوق پر طنز کرتے ہوئے جھاگ کی طرح بٹھا دیتے ہیں کہ ؎ بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا، وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔
دیکھیے شاعری میں بھی وہی ہوا ہے جو سائنس کے ساتھ ہمارے لوگوں نے کیا۔ جو نئی چیز آئی وہ بری کہلائی لیکن بعد میں ادھر ادھر دیکھ کے چپکے سے اسے اپنا لیا۔ اردو کی روایت میں یہ مشاعرے جو تھے یہ درباروں میں ہوا کرتے تھے، جب شہر کے امیروں اور نوابوں نے اپنے یہاں کروانے شروع کیے تو بادشاہوں کے منہ چڑھے شاعر وہاں نہیں جاتے تھے۔ جو ان میں گیا اسے سستے شاعر کا طعنہ دے دیا۔ وہ سین اوکے ہوا تو مشاعرے عام پبلک کے لیے بھی شروع ہو گئے۔ ان میں جو شاعر پڑھا کرتے ان پر بھی خوب لعنت ملامت ہوتی۔
مغل دور کو چھوڑ کے سیدھا ابھی بیس تیس سال پہلے پہ کود جائیں۔ اپنے جون ایلیا کو ان کے دوست تک کہتے تھے کہ یار تم مشاعروں کے لیے شاعری چھوڑ دو، تم اس سے بہت زیادہ اچھی شاعری کر سکتے ہو، تم کن کاموں میں لگے ہوئے ہو؟ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ درخت زرد آپ میں سے کتنوں نے پڑھی ہے اور وہ شعر کتنوں نے سن رکھا ہے کہ
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں؟
جون ایلیا اپنے مشاعروں کی ویڈیو میں زندہ ہیں، اپنی کتاب ’شاید‘ کے دیباچے میں زندہ ہیں یا ’خاصے کی شاعری‘ اپنی نظموں از قسم درخت زرد، راموز وغیرہ میں سانس لیتے ہیں، فیصلہ آپ کا ہے!
زیادہ تفصیل میں جانے کا موڈ نہیں ہے بس اتنا دیکھ لیجیے کہ ریڈیو کا مشاعرہ، ٹی وی کا مشاعرہ، وی سی آر کا مشاعرہ، عوامی اجتماع کا مشاعرہ، ہر مشاعرے میں جانے والے کے ساتھ ادب کے بڑے لوگوں کا رویہ شروع سے وہی رہا ہے جو آج فیس بک اور ٹک ٹاک کے شاعروں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے نفسیات یہی ہے کہ انہوں نے شاعری اور ادب کو عام بندے کی پراپرٹی نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک وہ ادب ہے، وہ شاعری ہے جس میں کوئی مشکل پسندی ہے، کوئی دور دراز کا نکتہ ہے، کوئی زبان کا داؤ پیچ ہے یا پھر ٹھوک بجا کے پورا اترتا ہوا قافیہ ردیف ہے۔
جب غزل کو خود اردو کے سنجیدہ ترین نقاد وحشی صنف کہہ چکے، سمجھیں تو یہ بتا دیا کہ قافیے ملانے کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے ہانپ کر کچھ فائنل کر دینے کا نام غزل ہے تو کس بات کا دعویٰ رہ جاتا ہے؟ سب زبان کا کھیل ہے جان عزیز، اگلا سانس لیتے ہیں۔
وزن شزن چھوڑیں وہ تولنا بڑے لوگوں کا معاملہ ہے، شعر دیکھیں؛
تم اس کا ہاتھ جھٹک کر یہ کیوں نہیں کہتیں
تو جانور ہے جو عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے؟
یہ علی زریون ہے۔ وہ علی جس کے بالوں جس کے حلیے پر اعتراض اٹھتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جون ایلیا کے جیسا بنا پھرتا ہے، جس پر سو طنز کیے جاتے ہیں لیکن یہ سب کہنے والوں میں سے کوئی اس خیال کو شاعری میں لے کر آیا؟ علی تو وہ شاعر ہے بھائی جو اپنے آس پاس کے حالات سے بھی متاثر ہو کے شعر کہہ رہا ہے۔ زمانے کا شعور رکھنے والا شاعر ایک طرف کیا کیا خطاب پا جائے اور اگر وہ عوام کا ہو تو اسے رول کے رکھ دیں، شعر پڑھیں؎
وحشت کی تحقیق بجا ہے لیکن اتنا دھیان رہے
ہر داڑھی اور زلفوں والا دہشت گرد نہیں ہوتا!
یا پھر یہ ملاحظہ کیجیے:
زہر اگلتی ہیں نصابوں کی عذابی باتیں
یہ فتوحات کے جھگڑے یہ کتابی باتیں
یہ وہ دھندہ ہے کہ جو بند نہیں ہو سکتا
پیاس کے شہر میں بکتی ہیں سرابی باتیں
کون ہے یار، کون لائے گا ایسے شعر؟ علی کو پڑھنا ہے تو خبردار ساعتوں کی حمد، مملکت خداداد، چوہڑا، حسن خیال، خدا، یہ سب اور کئی دوسری نظمیں پڑھ لیں یا کوئی بھی ایسا شعر جس پہ سو کالڈ فیشن ایبل فیس بکی تنقید کرنے والے ناک چڑھا رہے ہوں، وہ سن لیں، بات سامنے آ جائے گی۔ شرط یہ ہے کہ سوچنا اور سننا دماغ سے ہے، کسی اور کے لفظوں سے نہیں!
اور ہاں علی زریون پہ کلوز کرتے ہوئے یہ شعر کون بھول سکتا ہے؟ خیال چیک کریں، یہ وہ چیز ہے جو اسے نئے بچوں میں قبول عام دیتی ہے، دیکھیے:
چائے پیتے ہیں کہیں بیٹھ کے دونوں بھائی
جا چکی ہے نا؟ تو بس چھوڑ! چل آ، جانے دے!
واہ واہ، سبحان اللہ، کہاں وہ ہجر اور فراق کی شاعری کہ وصل میں بھی رنگ زرد رہے اور کہاں یہ بریک اپ کے بعد اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہونے کی صلاح ۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟ اسی کے نمبر دے دیں سرکار!
اب آ جائیں تہذیب حافی کی طرف، مزے کی بات یہ ہے کہ شاعروں کا آج بھی یہ دستور ہے کہ ایک شاعر اپنے شہر بلکہ دنیا کے کسی شاعر کو اپنے سے بڑا یا برابر مان کے نہیں دے گا۔ یہاں علی زریون اور تہذیب حافی وہ ہیں جو مشاعرے میں ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کے داد دیتے ہیں اور پیٹھ پیچھے رائے لی جائے تو بھی اچھے لفظوں میں ہی یاد کرتے ہیں، خیر، ہے ویسے عجیب سی بات لیکن آنکھوں دیکھی ہے!
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اسے پڑھ لیں، عام سا شعر ہے، گزرتے گزرتے پڑھ تو لیں گے لیکن کسی اصول کی طرح دماغ میں فٹ ہو جائے گا۔ یہاں فقیر تشریح نہیں کرے گا کہ وہ کام ان کا ہے جو خلاصے لکھتے ہیں، اپن اگلے شعر پہ جائے گا، اسی غزل کا ہے اور کیا روانی ہے؎
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
کیا کہتے ہیں؟ ایسا شاعر جو پیار محبت سے ہٹ کے بھی کوئی شعر نکال لائے اور اس میں فکر بھی نئی ہو تو کیا وہ ان پرانوں سے بہتر نہیں جو بس ایک سانچے کے شعر کہتے چلے آ رہے ہیں؟ شاعر اگر ایک شعر سے بھی زندہ رہ سکتا ہے تو حافی کے لیے شاید یہی کافی ہو۔ پھر یہ ؎
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
کیا واردات بیان کر دی بھئی، واہ واہ۔ کیا فون، واٹس ایپ یا ای میل کا ذکر شعروں میں آ جائے تو کوئی برائی ہے؟ اگر وہ ہے تو ہر نئی چیز برائی ہے سرکار۔ کبوتر، چٹھی، خط، لفافہ، جب تک یہ چلتے تھے شاعری بھی انہی پہ تکیہ کرتی تھی، آگے بڑھیں نہ بڑھیں کم از کم زمانے کے ساتھ تو رہیں۔
بغیر پوچھے بیاہے گئے تھے ہم دونوں
قبول کہتے ہوئے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے
ارینج میرج میں کیا شعر نکال دیا، کئی اور طریقے سے بھی اسے برتا جا سکتا ہے، وہ جیسے میٹرک میں ٹیچر مجازی کے شعر کو بھی حقیقی میں گھسیٹ لیتے تھے۔ بہرحال جو مرضی کریں آپ، شعر پیش کر دیا۔
اس کا ہنسنا ناممکن تھا یوں سمجھو
سیمنٹ کی دیوار سے کونپل پھوٹی ہے
فارسی میں سنگ، کوہ کن، تیشہ، یہ سب کافی پرانا نئیں ہو گیا؟ کچھ نیا نہیں تھا چاہیے؟ تو بس یہ مل گیا۔ نئی نسل کے لیے وہ سمجھنا آسان ہے جو اس کے آس پاس ہے بہ نسبت سعد بن لندھور کی کسی بھی داستان کے۔ تو کیا خیال ہے، کافی ہے؟
دیکھیے بات سادہ ترین ہے۔ اپنی رائے خود بنائیں، اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کوئی بھی شاعر یا ادیب کتنے پانی میں ہے اور اس پہ تنقید کرنے والوں نے آج تک خود کیا لکھا ہے یا کہا ہے۔ صرف فیشن میں یا بہتی گنگا یا ٹرینڈ کے ساتھ چلتے ہوئے کسی شاعر ادیب کو آپ ہلکا کہہ تو دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود پر نیا کچھ بھی سیکھنے اور سمجھنے کے دروازے بند کرتے چلے جاتے ہیں۔ خدا خوش رکھے، آباد رہیں!
جاتے جاتے تہذیب حافی کی یہ نظم پڑھیں اور بچپن کا ایک کھیل بھی یاد کر لیں۔
تیرے ہونٹوں پہ مکڑی کے جالوں کے جمنے کا دکھ تو
بہرحال مجھ کو ہمیشہ رہے گا
تو نے چپ ہی اگر سادھنی تھی
تو اظہار ہی کیوں کیا تھا؟
یہ تو ایسے ہے بچپن میں جیسے کہیں کھیلتے کھیلتے
کوئی کسی کو سٹیچو کہے
اور پھر عمر بھر اس کو مڑ کر نہ دیکھے۔۔۔