میرے سامنے ایک نہیں بے شمار مثالیں ہیں۔ ساری زندگی اولاد کو بتایا گیا کہ بیٹا پڑھو گے تو اچھی زندگی گزارو گے، اچھی نوکری ملے گی، اچھا مستقبل ہو گا، بڑی گاڑی ہو گی، عیاشی ہو گی، مٹی تے سواہ! بچے نے بی اے کیا، ایم اے کیا، ایم فل کر لیا اور بعض اوقات تو پی ایچ ڈی کر کے بھی جو نوکری حاصل کی اس میں اتنی تنخواہ نہیں بنی کہ صرف گھر کے بل ہی ادا ہو جائیں۔
لمبی چوڑی گپوں کی بجائے سیدھی بات یہ کہ پڑھائی کے اس وقت دو لیول ہیں۔ ایک وہ جو غریب کا بچہ حاصل کرتا ہے، دوسرا وہ جو امیر ترین ماں باپ افورڈ کر سکتے ہیں۔ بہت ہی کوئی آسمانی کرم ہو توغریبوں کی پڑھائی انہیں وہ سب کچھ دلا سکتی ہے جس کا خواب ان کے ماں باپ دیکھتے اور دکھاتے ہیں ورنہ ککھ نہیں ملتا سوائے ڈپریشن کے۔
آپ کسی بھی سرکاری یونیورسٹی سے ایم اے کر کے کیا لگ سکتے ہیں؟ جو بھی لگے اور جہاں بھی لگے، کتنی تنخواہ ہو گی؟ کیا اس میں گھر چلا سکیں گے؟ ہاں ویسے ہی روتے دھوتے، جیسے پچانوے فیصد پاکستانی چلاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر کا بچہ ادھر فُل انگریزی تعلیم تو لے گا ہی اور اس پر آخری مہر لگوانے امریکہ یا برطانیہ میں کسی ورلڈ کلاس یونیورسٹی کا منہ کرے گا۔ زیادہ تر تو وہیں نوکری کر لیں گے، جو ادھر لینڈ کریں گے ان کے ماں باپ، چاچا، ماما انہیں پہلے سے ہی سیٹ کرانے کا بندوبست کر چکے ہوں گے۔
وہ سیدھا جا کے ہیڈ آف فنانس، ایچ آر ہیڈ، ہیڈ آف کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ یا کوئی بھی ایسی سیٹ سنبھال لیں گے جہاں بیٹھ کر اپنے سے جونیئر پچاس، پچاس سال کے بابوں کی پریزنٹیشنز سنیں اور جو اچھی لگے اسے اپنا فیصلہ بنا کے آگے بڑھا دیں۔
ایسا صرف آپ کے یہاں نہیں ہو رہا، دنیا کا یہی دستور ہے۔ پڑھائی اگر اعلیٰ ترین لیول کی ہے تو ساتھ سفارش بھی تگڑی ہونی چاہیے ورنہ کوئی حسین اتفاق ہی آپ کو خوابوں کی نوکری دلوا سکتا ہے، یا پھر بیس، پچیس سال رگڑا کھانے کے بعد جب خواہش نہیں رہتی تو چیزیں خریدنے کے پیسے آنے شروع ہو جاتے ہیں۔وہ بیس سال کہاں سے آئیں گے جو عمر کے بہترین سال تھے اور جو دیسی ڈگریاں لینے والے نے خواریاں کاٹ کے گزار دیے؟ اب آپ نے مثالیں دینی ہیں سی ایس ایس کرنے والوں کی، کسی ماہر معیشت دان کی، کسی نوٹ چھاپ استاد کی، ایک آدھے کماؤ مصنف کی، پندرہ بیس کامیاب ٹی وی اینکروں کی، دو تین سو ٹاپ بینکروں کی، ٹھیک ہے۔ ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟ بائیس کروڑ میں سے دس ہزار؟ بیس ہزار؟ اور پھر ان میں سے کتنے ہوں گے جو اردو میڈیم اور سرکاری اداروں میں ساری زندگی پڑھا اور پھر کسی اچھی کمائی والی سیٹ تک پہنچ گئے؟ ایسے نہیں ہوتا یار۔
نوکریاں دینے والے تھال میں لے کے نوکریاں نہیں بانٹتے اور اسی طرح نوکریاں چاہنے والے عام بچے اتنے قابل نہیں ہوتے کہ وہ سیدھے کسی اچھی جگہ جا کر معزز قسم کی تگڑی تنخواہ والی نوکری حاصل کر سکیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلا حل تو یہ کہ بچے کے دماغ میں ڈالیں کہ بیٹا پڑھائی کے ساتھ اپنا کوئی بھی کام شروع کرو۔ کچھ بھی کرو۔ کسی کپڑا بیچنے والے کی دکان پر جا کے بیٹھو، موٹر سائیکل والے کی ورکشاپ میں پارٹ ٹائم مفت نوکری کرو، پیسے مت لو بس کام سیکھو، کچھ نہیں ہے تو کریانے کی دکان چلانے کا تجربہ لو، کسی ریڑھی والے کے ساتھ ڈیوٹی دو کہ تمہیں پھل فروٹ یا سبزیاں بیچنے کی ڈائنامکس سمجھ آ جائیں، دودھ دہی کے کام کی سائنس سمجھو، کمپیوٹر یا موبائل ٹھیک کرنا سیکھو، گاڑیوں کا کام سیکھو، کچھ بھی کرو اتنا سیکھ لو کہ کل کو اپنا کام شروع کر سکو۔بچیاں ہیں تو مہنگی فیشن ڈیزائنگ کی بجائے خواتین درزنوں کے پاس کام سیکھیں، بیوٹی پارلر کے سستے کورسز لیں، آن لائن کام کرنا سیکھیں، پراپرٹی ڈیلنگ سیکھیں، شوروم کا کام سیکھیں، گھر میں کھانے بنانے آتے ہوں تو انہیں دفتروں میں لنچ ٹائم پر بھیجنے کا بزنس سوچیں، کپڑوں کی ڈیزائنگ کر کے انہیں آگے بیچیں، اور کچھ نہیں تو ڈرائیونگ سیکھ لیں، اوبر، کریم بھی کچھ نہ کچھ پیسے دے جاتی ہیں۔ یہ سب کیوں کریں؟ قسم خدا کی، عام بی اے، ایم اے کیا ہوا بچہ ہرگز اس قابل نہیں ہوتا کہ مقابلے بازی کے اِس دور میں کسی اچھی جگہ فٹ ہو جائے۔
قصور اس کا نہیں ہوتا، مسئلہ تعلیم کے اعلیٰ ترین معیار سیٹ ہونے کا ہے۔ کورس کی کتابیں کم از کم مجھے آج تک کچھ نہیں سکھا پائیں۔ چاند میری زمیں پھول میرا وطن یاد ہے۔ ون کلاس والا شی از سارا خان، ہی از ہادی، شی از ٹال، ہادی از شارٹ یاد ہے۔ دس تک پہاڑے یاد ہیں، غالب اور مینائی کی مشکل شاعری یاد ہے، مسٹر چپس کا ناول یاد ہے، قانون تقلیل افادہ مختتم، ذواضعاف اقل اور عاد اعظم یاد ہے لیکن کیا یہ سب علم کوئی ایسی نوکری دلا سکتا ہے جو قابل ذکر ہو؟ جس میں گھر چلتا ہو؟ اگلے آکسفورڈ اور کیمبرج کے جدید ترین کورس پڑھ کے آئے ہوتے ہیں، اردو میڈیم سرکاری ادارے کے بچے کو آخر کوئی کیوں پوچھے گا بھائی؟
اس کی عزت نفس مرنے سے پہلے اسے ایک ہنر کا تحفہ ضرور دیں۔ کسی بجلی والے سے پوچھ لیں ماشاللہ ایک سیزن میں کتنے پیسے کماتا ہے اور اس کے بعد دماغ جگہ پر لائیں۔
ایک جواب یہ ہوتا ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کے اچھا آدمی بنے گا۔ کیا ہوتا ہے اچھا آدمی؟ مہذب؟ تہذیب یافتہ؟ سوری! کورس کی کتابیں ہرگز وہ نہیں بناتیں۔ وہ کام یا تو گھر کی تربیت سے ہوتا ہے یا صرف لٹریچر پڑھنے کے نتیجے میں بندہ تھوڑا تمیزدار ہو جاتا ہے۔
تمیزدار بھی کیا، اصل میں ادب یا لٹریچر انسان کو ڈرپوک بنا دیتا ہے۔ وہ کچھ کرنے کی بجائے اس کے فلسفوں میں الجھا رہتا ہے، پریکٹیکل نہیں رہتا۔ ان پڑھ کیا اچھے آدمی نہیں ہوتے؟ اور کیا اچھے آدمی سے مراد آپ صرف بیبا بندہ لیتے ہیں یا وہ انسان جو چوکھے نوٹ کمانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو؟ اچھا آدمی آخر معاشی طور پر مطمئن بھی تو ہونا چاہیے نا؟
تو میری جان، بی اے، ایم اے ضرور کرائیں بچوں کو لیکن ان کے دماغ میں ڈالیں کہ اپنا کام کرو۔ کچھ بھی کرو۔ سوئی دھاگے اور بٹن بیچو یا قصائی بن کے گوشت بیچو۔کام کوئی بھی برا نہیں ہوتا اور پڑھا لکھا بچہ کام کرتا بھی اچھے صاف ستھرے طریقے سے ہے۔ اپنے کام میں ترقی کے سو راستے ہیں اور نوکری سے بڑا نشہ کوئی نہیں۔ چلو چار پیسے ملتے ہوں، ضرورتیں پوری ہوتی ہوں، وہ سب کچھ بھی نہ ہو اور لاکھوں خرچ کروا کے ڈگریاں لینا والا بچہ بیس، پچیس ہزار کے کھونٹے سے بندھا رہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
سب سے بڑا ظلم پتہ ہے کہاں ہوتا ہے؟ باپ کی ورکشاپ ہے، بیٹا کہتا ہے میں پڑھ کے یہ کام کروں؟ کپڑے گندے کروں؟ باپ تمباکو کا کام کرتا ہے، بیٹے کو کپڑوں میں بو آتی ہے۔ باپ مچھلی منڈی کا بیوپاری ہے، ماں کہتی ہے بیٹے سے بھی یہی بساند آئے گی۔
باپ قصائی ہے، شہر کے مرکز میں دکان ہے، بیٹا نہیں سنبھالتا کہ گھن آتی ہے۔ باپ کباڑیا ہے، لوہے کے سکریپ کا بزنس کرتا ہے، بیٹا پڑھ لکھ کے سفید قمیص پہننے کے نشے میں رہتا ہے۔
باپ کی نرسری ہے، بیٹے کو باپ مالی لگتا ہے، مٹی سے کام لینے والا میلا آدمی لگتا ہے۔ ابے ناشکرو، اس سے تمہارا گھر چلتا تھا، تمہاری شادیاں ہوئیں، تمہارے گھر کے اے سی چلتے ہیں، یہ زمین جس پر بیٹھے ہو یہ اسی کاروبار سے آئی، تم لوگ اس سے بھاگتے ہو؟ ساری زندگی بھی نوکریاں کرتے رہو تو لاکھ میں سے ایک ہو گا جو اتنا کمائے گا جتنا باپ اب کماتا ہے۔ بندے بنو یار قسمے!
دیکھیں خواب دیکھنے کا حق سب کو ہے۔ بچوں کو پڑھائیں، لکھائیں لیکن ان کے ہاتھ مت توڑیں۔ بچے کا اور اپنا دماغ ریٹائر مت کریں۔ اسے بچپن سے بتاتے رہیں کہ پتر کام سیکھے گا تو ہی سکون میں رہے گا ورنہ دھکے ہیں۔پڑھائی شڑھائی میں کچھ نہیں رکھا بس اردو انگلش پڑھنے جوگی سیکھ لے، تھوڑی بہت بولنی آتی ہو، انٹرنیٹ سے کام لینا آتا ہو، بہت کافی ہے۔ ضرورت پڑے گی تو بزنس کے لیے چائنیز بھی سیکھ لے گا۔ اب جو مرضی آئے کریں۔ اپنے تو سفید بالوں کا نچوڑ یہی تھا۔ بھائی جان، مہربان، قدر دان۔ یہ ایک شیشی۔ دو دو روپے، دو دو روپے، دو دو روپے!