سندھ پولیس کے مبینہ ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ اور شہرِ قائد کے ضلع ملیر کے سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری سے شکایت کی ہے کہ وہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروا سکتے تھے۔
اس کیس کے حوالے سے بات کرتے انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سندھ پولیس کی جانب سے انہیں اس مقدمے میں فریم کیا گیا ہے، جس میں اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا مبینہ طور پر اپنا ذاتی مفاد تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے نقیب اللہ کے قتل کیس میں سوموٹو ایکشن لینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ دراصل اے ڈی خواجہ اور نقیب قتل کیس کے وکیل ایڈوکیٹ فیصل صدیق کا مبینہ گٹھ جوڑ تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کے خلاف ایکشن لیا تھا۔
امریکہ کی جانب سے سنگین معاشی پابندیوں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے طنزیہ انداز میں امریکہ کی رپورٹ پر کمنٹ کیا کہ ’امریکہ نے میرے 44 قتل کم لکھ دیے۔‘
’میں ہر انکاؤنٹر کے بعد میسج کرتا تھا، نقیب کے انکاؤنٹر کے بعد بھی کیا تھا‘
سندھ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق راؤ انوار نے 25 جولائی 2011 سے لے کر 19 جنوری 2018 تک کُل 192 پولیس مقابلے کئے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ نقب اللہ کو 13 جنوری 2018 کو ایک مقابلے میں ہلاک کیا گیا جس کے بعد راؤ انوار کا برا وقت شروع ہوا۔ سندھ پولیس کی رپورٹ کے ہی مطابق سال 2014 میں راؤ انوار نے سب سے زیادہ، تقریباً 152 مبینہ قتل کئے۔ تاہم وہ ان الزامات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو اس میں پوری پولیس ملوث تھی۔
راؤ انوار سے جب یہ پوچھا کہ ان کی رائے میں کیا یہ عداد و شمار درست ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں جس دوران ملیر میں تعینات تھا اس وقت اسے چھوٹا وزیرستان کہا جاتا تھا، اس لیے یہ ممکن ہے کہ اس سے بھی ذیادہ انکاؤنٹرز ہوئے ہوں گے تقریباً پانچ سو یا ساڑھے پانچ سو لیکن آج تک ایک بھی انکاؤنٹر میں نے براہ راست نہیں کیا اور میرے دور میں اگر انکاؤنٹرز ہوئے ہیں تو میں اکیلا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کیا اس وقت کے ڈی آئی جی اور اے آئی جی سوئے ہوئے تھے؟ اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تھے اور پورے سندھ میں تقریباً 1800سے زائد انکاؤنٹرز ہوئےتھے تو کیا یہ کہا جائےگا کہ یہ تمام انکاؤنٹرز اے ڈی خواجہ نے کئے! ٹیم کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
نقیب اللہ کے انکاؤنٹر کا ذکر کرتے ہوئے راؤ انوار کہنا تھا کہ ’جس وقت نقیب کا انکاؤنٹر ہوا میں تو جانتا بھی نہیں تھا کہ وہ کون ہے، میں ہر انکاؤنٹر کے بعد آئی جی، ڈی آئی جی،اے آئی جی اور ایس ایچ او کو میسج کرتا تھا، بلکہ نقیب کے انکاؤنٹر کے بعد بھی کیا تھا۔ نقیب والے انکاؤنٹر میں صرف دو دہشت گردوں کی شناخت ہوئی تھی جن میں مولوی اسحاق اور سابق ٹی ٹی پی کمانڈر حکیم اللہ محسود کا گن مین نظر شام تھے۔‘
نقیب اللہ محسود کی شناخت کے حوالے سے راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ’نقیب نامی شخص کے والد نے میرے خلاف ایف آئی آر میں اپنے بیٹے کا نام نقیب اللہ محسود لکھوایا ہے جب کہ اس کا اصل نام نسیم اللہ تھا۔ یہ شخص مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا اور مختلف جرائم پیشہ افراد سے اس کے تعلقات تھے۔‘
’سندھ پولیس نے مجھے نقیب اللہ محسود کے قتل کیس میں فریم کیا ہے‘
نقیب اللہ محسود کے کا حوالہ دیتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر نے یہ انکشاف کیا کہ اس کیس میں انہیں جان بوجھ کر الجھایا گیا ہے اور الجھانے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کے محکمے کے لوگ ہیں۔ اس حوالےسے ان کا کہنا تھا کہ’اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ، ڈی آئی جی سلطان خواجہ اور ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی نے مجھے اس کیس میں الجھانے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ انہوں نے خود اپنے گواہ بنائے اور اپنی مرضی کے سٹیٹمنٹس دلوائے۔ سندھ پولیس نے مجھے نقیب اللہ محسود کے قتل کیس میں فریم کیا ہے۔‘
ہم نے جب راؤ انوار سے یہ جاننے کی کوشش کہ جس محکمے میں انہوں نے 37 سال سروس دی، اس محکمے کے لوگ انہیں کیوں فریم کریں گے، انہیں اس ے کیا فائدہ ہوگا تو اس کے جواب میں راؤ انوار نے انکشاف کیا کہ اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے کچھ ذاتی کام اور فرمائشیں پوری نہ کرنے کے باعث، پیشہ ورانہ جلن اور پیپلز پارٹی کی سپورٹ حاصل ہونے کی وجہ سے انہیں سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔
راؤ انوار کا اس حوالے سے ان کہنا تھا: ’جب ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کو میں نے گرفتار کیا تھا کو آئی جی کے خلاف میں نے پریس کانفرس کی تھی اور کہا تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا، اس کے بعد آئی جی نے میرے خلاف انکوائری کروائی لیکن پھر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے، میں واپس ایس ایس پی بن گیا۔ بلکہ خود آئی جی لگنے کے لیے اے ڈی خواجہ اس وقت کے ہوم منسٹر سہیل سیال اور ثنا اللہ عباسی کے ساتھ، زرداری صاحب ان کی بہن سے ملاقات کرنے دبئی گئے۔ اس وجہ سے ہی تو اے ڈی خواجہ آئی جی لگے۔‘
آصف علی زرداری سے تعلق
راؤ انوار نے آصف علی زرداری سے اپنے تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس شکوے کا اظہار کیا کہ ’جس وقت نقیب قتل کیس کی انکوائری ہو رہی تھی اس وقت بھی سندھ میں ان کی حکومت تھی، ان کا وزیر اعلیٰ تھا، وہ چاہتے تو شفاف تحقیقات کروا سکتے تھے، بلکہ ان کو کروانی چاہیے تھی۔‘
سابق صدر آصف علی زرداری سے ان کی قربت کے باعث انہیں سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سمیت کافی پولیس افسران ناپسند کرتے تھے۔
راؤ انوار کے مطابق وہ اور آصف علی زرداری صرف غلط کام کے لیے ہی ایک دوسرے کو یاد نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں زرداری صاحب کو بہت پرانا جانتا ہوں، ہم دونوں کالج میں ساتھ پڑھتے تھے، وہ میرے سینیئر تھے۔ وہ مجھ سے ایسے تعلقات بناتے تھے جیسے پتہ نہیں کیا بات ہے! ہم ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے۔‘
ہم نے راؤ انوار سے جب یہ پوچھا کہ آصف علی زرداری نے انہیں ’بہادر بچہ‘ کہہ کر اپنے الفاظ واپس کیوں لے لیے اور اچھے تعلقات ہونے کے باجود بھی ان کا مشکل وقت میں ساتھ کیوں نہیں دیا؟ تو راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ میرے پیچھے سب سے لڑنا شروع ہو جاتے تو اس پر بہت سیاست ہوتی۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی وجہ سے مجھ پر کوئی بات آئے یا میری وجہ سے ان پر۔ انہوں نے کبھی مجھے غلط کام نہیں کہا، اگر وہ مجھے کہتے تو بھی میں نہیں کرتا۔‘
امریکہ کی معاشی پابندیوں پر ردِعمل
حال ہی میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کرنے والی 18 شخصیات کو نامزد کیا گیا جن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
راؤ انوار نے بتایا کہ ’جلد ہی میں امریکہ کے محمکہ خزانہ کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے خلاف کیس کروں گا اور امریکہ سے وضاحت مانگوں گا کہ انہوں نے کس بنیاد پر میرے خلاف 400 ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے تو بغیر تحقیقات کئے صرف سنی سنائی باتوں پر یہ فہرست بنائی ہے، بلکہ انہوں نے تو 400 کا فیگر دیا ہے جو پاکستانی حکام کے دعوے سے 44 قتل کم ہیں۔
راؤ انوار اس وقت ضمانت پر ہیں اور اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے ثبوت جمع کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جلد ہی تمام ثبوتوں کے ساتھ وہ سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے اور نقیب قتل کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔