بھارت کے دارالحکومت دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے ) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) نامی قوانین کے خلاف طلبہ کا احتجاج کئی روز سے جاری ہے۔ جن پر پولیس کے تشدد اور نقاب پوشوں کے حملوں میں کئی طلبہ زخمی ہو چکے ہیں۔
ان طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے آج لاہور میں پروگریسو سٹوڈنٹ کلیکٹوو کی جانب سے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج میں نوجوانوں کے علاوہ اساتذہ بھی موجود تھے۔
لاہور پریس کلب کے باہر موجود طلبہ نے پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے اور مطالبے درج تھے جن میں سے کچھ پلے کارڈز ہندی زبان میں لکھے گئے تھے۔
طلبہ احتجاج کی قیادت کرنے والی عروج اورنگزیب نے ایک بار پھر بسم عظیم آبادی کی نظم ’سرفروشی کی تمنا ’ پرجوش انداز میں دہرائی جبکہ ان کے ساتھی طلبہ کی جانب سے ’ہم کیا چاہتے، آزادی، سمیت زندہ ہیں طلبہ زندہ ہیں، سرخ ہو گا سرخ ہو گا ایشیا سرخ ہوگا اور جب لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا ‘ کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر وہاں معروف شاعر فیض احمد فیض کی صاحب زادی سلیمہ ہاشمی بھی شامل تھیں اور انہوں نے بھی نعروں پر مبنی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ بھی پڑھی گئی۔ پروفیسر عمار علی جان کے مطابق اس احتجاج میں صرف طلبہ اور اساتذہ ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔
طلبہ یکجہتی مارچ میں پیش پیش اور ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ نظم سے شہرت حاصل کرنے والی عروج اورنگزیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا احتجاج بھارت میں موجود ہمارے طلبہ ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہے کیونکہ وہاں انہیں جس فاشزم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تقریباً ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہمیں یہاں کرنا پڑ رہا ہے۔‘
’بھارت اور پاکستان میں دائیں بازو کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح اظہار خیال پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ وہاں پر یونینز موجود ہیں لیکن پاکستان میں گذشتہ 35 سال سے یونینز پر پابندی عائد ہے۔ بھارت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خواتین کو ڈنڈے مارے گئے جبکہ جے این یو اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو بھی بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں میں بھی اسی قسم کی پابندیوں کا سامنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج ہر اس طالب علم کے لیے ہے جسے ڈنڈے کے زور پر چپ کرایا جا رہا ہے۔
ہندی زبان میں پلے کارڈ اٹھائے مظاہرے میں شریک خاتون سے جب مظاہرے میں آنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ترقی پسند آوازوں کو دبایا جا رہا ہے اور ان پر حملے کیے جا رہے ہیں اور ایسا کرنے والے فاشزم کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔
’پوری دنیا میں ہی اس رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ہم اس حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں اور اگر ہم متحد ہوں گے تو ہماری بات میں زیادہ طاقت ہو گی۔‘
مظاہرے میں شریک پروفیسر عمار علی جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمار یہ احتجاج جے این یو اور جامعہ کے طلبہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہے۔ ہمارے اس مظاہرے کا مقصد بھارت میں احتجاج کرتے طلبہ کو حوصلہ دینا ہے اور انہیں یہ بتانا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔