یقین نہیں آتا۔۔۔ کوئی بندہ شہزادہ ہو اور ایسا کرے؟ ایسا شہزادہ جس کی ظاہر ہے زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی، نہ کسی نوکری کی فکر، نہ چاکری کا فاقہ۔ نہ مہینے کے آغاز میں تنخواہ کا انتطار، نہ ماہ کے آخر میں پیسے ختم ہونے کا ڈر۔ نہ کوئی کام کرنے کی پابندی، نہ کسی کو جواب دینے کی مجبوری۔ نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے، جائیدادیں۔ سیر سپاٹے اور گھومنا پھرنا۔ ایسا عیش کسے نصیب ہو گا؟
پھر بھائی ہیری! آپ کو ہوا کیا ہے؟ کیوں شاہی ٹھاٹ باٹ کو ٹھوکر مار رہے ہیں؟ میں تو حیران ہوں کہ اس دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو شہزادوں والی زندگی سے تنگ آ جائے؟ عقل کو ہاتھ ماریں، آخر بتائیں تو کہ ہوا کیا ہے؟ اگر یہ مت میگن مارکل نے دی ہے، تو بھی آفرین ہے آپ پر۔ ضروری تو نہیں کہ بندہ بیوی کی ہر بات ہی مان لے۔
آپ نے فرمایا: مالی طور پر خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ کیوں جی؟ ایسی کیا مجبوری ہے؟ اگر مالی طور پر خودمختار ہونا ہے تو ظاہری بات ہے کوئی کام دھندا پکڑنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو نوکری ڈھونڈنا پڑے گی۔ کوئی صرف اس وجہ سے تو آپ کو ملازمت نہیں دے گا کہ آپ شہزادے ہیں؟
لہذا آپ کو کوئی کام سیکھنا ہوگا۔ سی وی بنانا پڑے گی۔ بیس جگہ اپلائی کریں گے تو کسی ایک جگہ سے کال آئے گی۔ بہت قسمت ہوئی تو چند مہینے میں نوکری مل جائے گی۔ لیکن ابتدا میں تنخواہ صرف پندرہ بیس ہزار روپے برابر ہی ملے گی ۔
خود مختاری کے لیے بادشاہت چھوڑی ہے تو اگلوں نے آپ کو محل میں تھوڑی رہنے دینا ہے۔ آپ ڈھونڈیں گے کرائے کا کوئی چھوٹا موٹا مکان۔ شہزادہ صاحب بیوی اور ایک بچے کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں رہیں گے تو لگ پتہ جائے گا اور پھر جتنی آپ کی تنخواہ ہو گی، اس میں گرمیوں میں بس پنکھا ہی چلے گا۔ جب پسینے بہہ رہے ہوں گے تو اپنی خودمختاری کے تولیے سے خشک کر لیجیے گا۔ جب بچہ برفی کھانے کی فرمائش کرے گا، تو اسے صبر کا پھل کھلایے گا۔
اب معلوم نہیں کہ انہیں برطانوی شاہی خاندان سے گزر بسر کے لیے کچھ ملے گا یا نہیں لیکن سنیے، آپ کی تنخواہ میں میگن صاحبہ کوئی کام والی بھی نہیں رکھ سکیں گی۔ ساری ہانڈی روٹی خود ہی کرنی پڑے گی۔ تب شاہی باورچی کی پکی گول گول روٹیاں یاد نہ کیجیے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر جو نوکری دیتے ہیں، وہ کام بھی لیتے ہیں۔ آپ کو کوئی کھڑوس قسم کا باس مل گیا تو وقت پر چھٹی بھی نہ دے گا۔ تاخیر سے گھر آئیں گے تو یہی طعنے سنیں گے، ’تم بہت بدل گئے ہو ہیری!‘
ابھی تو آپ کا علاج معالجہ بھی شاہی طبیب کر دیتا ہے۔ پھر آپ جائیں گے سرکاری ڈاکٹر کے پاس۔ اس نے نہ آپ کو اچھے طریقے سے دیکھنا ہے، الٹا مہنگے مہنگے غیر ضروری ٹیسٹ لکھ دینے ہیں۔ بعد میں کہنا ہے، شام کو میرے کلینک پر آ جانا اور جو اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، آپ کا بجلی یا گیس کا بل غلط آ گیا، پھر میٹر ریڈر کے پیچھے پھرتے رہیں گے اور بجلی گیس کے دفاتر کے چکر کاٹتے رہیں گے۔ کام آپ کا پھر بھی نہیں ہو گا۔
تو ہیری بھائی! میری مانیں، بادشاہت سے آپ کو جتنی بھی پریشانی ہو، لیکن وہ پریشانی ایک عام آدمی کی پریشانیوں سے کہیں کم ہی ہوگی، لہذا ارادہ بدل دیں اور اگر نہیں بدلنا تو دادی اماں سے بات کرکے مجھے شہزادہ بھرتی کرا دیں۔
بہت دعائیں دوں گا۔