سچ یہ ہے کہ دکھ ہوا۔ دکھ ہوا کہ جب آواز پڑی تو سیاست کے سارے کج کلاہ بھاگم بھاگ دربار میں جا پہنچے۔
وہ دانش ور جو ووٹ کی تقدس کے لیے سیاسی اکابر کے جلو میں کھڑے ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کی قیمت چکائی، دکھی ہو گئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ مایوس نہیں ہوئے، ہوتے بھی نہیں ہیں۔
90 کی دہائی میں کچھ قلم کار اور دانش ور بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے۔ تب مسلم لیگ ن کا یہ گمان تھا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔
ایک خیال یہ بھی تھا کہ بے نظیر بھٹو نے خزانے کا بہاؤ اہلِ دانش کی طرف کر دیا ہے۔ اپنا حصہ اٹھائے جاتے ہیں اور مسلم لیگ کے خلاف اپنی رائے دے کر ملک دشمن ہونے کا ثبوت دیے جاتے ہیں۔
یہ دانشور، اساتذہ، شاعر، قلم کار اور اخبار نویس بےنظیر بھٹو کے ساتھ نہیں تھے۔ یہ پارلیمان کے ساتھ تھے اور بےنظیر بھٹو تب پارلیمان کی نمایاں ترین علامت تھیں۔
دوسری طرف وہ تھے جنھیں ’قومی سلامتی‘ کی فکر لاحق تھی اور میاں نواز شریف کو اس قبیلے کی قیادت سونپ دی گئی تھی۔
90 کی اس دہائی میں مسلم لیگ کی طرف سے جو الزامات آئے، نمایاں ان میں تین تھے۔ بے نظیر ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، مالی طور پر بدعنوان ہیں، اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہیں۔
یہی تین پیمانے رکھ کر پھر ان لوگوں کا محاسبہ کیا گیا جو طاقت کے غیر جمہوری مراکز کے مقابلے میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے۔ عاصمہ جہانگیر سے لے کر آئی اے رحمان تک آشفتہ سروں کی ایک پوری فہرست ہے جو مسلم لیگ کے ہاتھوں رسوا ہوئی۔
کسی کا صحافتی کیریئر تباہ ہوا، کسی کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا۔ جو ’مثبت‘ رپورٹنگ کر رہے تھے وہ سرکاری اعزازات سے نوازے گئے،جو نشاندہی کر رہے تھے ان کے خاندان اجاڑ دیے گئے۔ مگر احمد فراز نے کہا تھا
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
زمانہ بدل گیا، اور جس بات پر میاں نواز شریف گردن ناپا کرتے تھے وہی بات ان کے نصاب کا بنیادی وظیفہ بن گئی۔ نئے منظرنامے میں میاں نواز شریف پارلیمان کی نمایاں علامتوں میں سے ایک علامت بن گئے۔ طاقت کے جس مرکز کو مفارقت کا داغ دے کر وہ آئے تھے اس نے قومی سلامتی کی پاسبانی کے لیے نیا بت تراش لیا۔
اب وہی الزامات تھے جو کبھی نواز شریف نے بے نظیر بھٹو پر لگائے تھے۔ گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں بے نظیر سکیورٹی رسک تھیں، اگلی صدی کی پہلی دہائی میں نواز شریف قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بساط کے سارے مہرے بدل گئے، راستے بدل گئے اور سمتیں بدل گئیں۔ نہیں بدلی تو بس احرار کی روایت نہیں بدلی۔ روایت یہ ہے کہ جانے والے کو وہ روکتے نہیں ہیں آنے والوں کو ٹوکتے نہیں ہیں۔ جس بنیاد پر یہ ضیاء الحق کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں ٹھیک اسی بنیاد پر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو جبر کہتے ہیں۔
جس بنیاد پر وہ بے نظیر بھٹو کے گرد حلقہ کیے بیٹھتے ہیں، اسی بنیاد پر میاں نواز شریف کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ قافلہ اپنی جگہ پرچم تھامے کھڑا رہتا ہے، لوگ آتے رہتے ہیں لوگ جاتے رہتے ہیں۔ جو آجائے اس کا بھی بھلا جو نہ آئے اس کا بھی بھلا۔
زخم ابھی تازہ ہے اور دکھ بہت گہرا ہے، اس لیے وہ میاں صاحب سے بجا طور پر شکوہ کر رہے ہیں کہ
دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
جمہوریت پسندوں کے اس شکوے کا یہ مفہوم بتانا کہ جمہوری سیاست دفن ہو گئی ہے، یہ محض ایک بات ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک خواہش۔ سیاست کی دنیا میں دستیاب آپشن بروئے کار آتے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست میں ہمیشہ سے ہی دو دھڑے رہے ہیں۔
ایک وہ جو ادارہ جاتی مفاد کو قومی مفاد باور کرواتے ہیں، دوسرے وہ جو ’قومی مفاد‘ سے اوپر اٹھ کر سیاسی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
پہلے دھڑے کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ سیاسی سرگرمی کا حصہ ہوتا ہے۔ رویے میں وہ میں سدا کا غیر جمہوری ہوتا ہے۔ دوسرا دھڑا اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے، جس کی پہچان اس کا ووٹ ہوتا ہے۔ جب بھی پڑتا ہے یہ ووٹ مزاحمتی سیاست کے حق میں پڑتا ہے۔ جس جماعت سے کارکن کی وابستگی مزاحمت کی نفسیات کے زیر اثر ہو، وہ جماعت چاہتے ہوئے بھی مزاحمتی بیانیے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔
عوامی نیشنل پارٹی نے گذشتہ انتخابات سے قبل اداروں کے بیچ ’تصادم‘ کو غلط قرار دیا تو نتیجہ سامنے ہے۔ پختونخوا میں مسلم لیگ نے چار لاکھ ووٹ اے این پی سے زیادہ لیے۔ پیپلزپارٹی نے بلوچستان حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں نقب زن کو کندھا دیا، غیب کے پردوں سے ظہور پذیر ہونے والی ذات والا صفات کو سینیٹ کا چیئرمین لگایا، مگر ملا کیا؟
کراچی میں مصطفیٰ کمال کے آنسو اور فاروق ستار کی ماں کی دعا بھی کوئی کرشمہ نہ دکھا سکی۔ آپ الطاف حسین سے اختلاف کر لیجیے، مگر اِس سچائی سے کیسے انکار کر پائیں گے کہ کراچی میں جو چیز کامیاب رہی وہ الطاف حسین کے ووٹروں کا بائیکاٹ تھا۔ آسمان سے جو ستارے توڑ کے لائے گئے انہیں کُل ملا کے تین چار نسشتیں ملیں، اور وہ بھی کیا ملیں۔ وہ دوچار بھی اپنے حلقے میں جائیں تو بغلیں جھانکتے ہوئے جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی روایت کو پنجاب کے ایک نئے لہجے کا تجربہ ہوا ہے۔ یہ مزاحمت کا لہجہ ہے جس کی حسرت خان عبدالولی خان اپنے دل میں لیے دنیا سے چلے گئے۔
انہوں نے کہا تھا، جمہوریت کی آواز کو جب تک پنجاب سے قیادت نہیں ملے گی، سیاست کی یہ جنگ تب تک فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہو گی۔
انتخابات سے قبل جی ٹی روڈ کے ایک سرے سے دوسرے تک ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعرے کی مشق کروائی گئی۔ سپریم کورٹ اور نیب کے دروازے پر جمہوری روایت کے نمائندہ نعرے لگے۔ سیاست کی جن آسیب زدہ راہداریوں میں قدم رکھتے ہوئے پتہ پانی ہو جاتا تھا، ان راہداریوں میں بیٹھ کر چاک گریبان کارکنوں نے راگ ایمن کی دھنیں بکھیری ہیں۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ، حوصلے کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے موجودہ مفاہمتی کردار کے خلاف خود مسلم لیگ کے کارکنوں نے مزاحمت کی ہے۔ یہ ریت روایت پی پی کے جیالوں کی تھی جو اب مسلم لیگ میں دیکھی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت غلط فیصلوں کے بعد منہ چھپانے والی روایت نہیں رکھتی تھی، اپنے کارکن کے تیور دیکھنے کے بعد انہوں نے یا تو خاموشی میں بہتری جانی ہے یا اگر کوئی عذر دیا بھی تو بہت دھیمی آواز میں دیا۔
جبر کے موسموں میں اس سے زیادہ کی توقع رکھی بھی کیوں جائے؟ نواز شریف مستقبل کے منظرنامے میں کس سمت کا تعین کرتے ہیں، اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ووٹر نے کس سمت کا انتخاب کیا ہے۔ کارکن نے اُسی سمت کا انتخاب کیا ہے جس سمت میں 1958 سے لمحہ موجود تک کی روشن فکر روایت کھڑی رہی ہے۔ سیاسی کارکن کا یہ آہنگ اور بانکپن سلامت رہے تو وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، ہم ضرور دیکھیں گے۔