جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے عین ممکن ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تہران کے لیے اڑان بھر چکے ہوں۔
امریکہ ایران حالیہ کشیدگی میں پاکستان قومی، علاقائی اور عالمی مفاد میں کمی کروانے کا خواہش مند ہے لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ایران، امریکہ یا سعودی عرب میں سے کسی نے پاکستان سے اس مصالحتی یا کشیدگی میں کمی کروانے کے کردار کو ادا کرنے کی درخواست کی؟
جواب ظاہر ہے نفی میں ہے۔ تو پھر سوال بنتا ہے کہ پاکستان کی اس کوشش میں کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟
یہی وہ سوالات تھے جو جمعے کی سہہ پہر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ہم صحافیوں نے کیے۔ دفتر خارجہ کے جمشید مارکر ہال میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال، امریکہ ایران کشیدگی اور وزیراعظم خان کی ہدایت کے مطابق وزیر خارجہ کے دورہ تہران، ریاض اور واشنگٹن پر سینیئر صحافیوں کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کے نام سے منسوب ہال میں یہ بریفنگ رکھی گئی، جمشید مارکر پاکستان کے چوٹی کے سفارت کاروں میں سے ایک تھے اور افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا میں جمشید مارکر کے کردار کو بھی اہم گردانا جاتا ہے جو اُن دنوں امریکہ میں سفیر تعینات تھے۔
جمشید مارکر کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈزمیں شامل ہے کیونکہ وہ دنیا بھر میں سب سے طویل عرصے تک بطور سفیر فرائض سرانجام دیتے رہے۔
انھوں نے 94 طویل عمر پائی اور 2018 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
جمشید مارکر کا تعلق پارسی گھرانے سے تھا اور قیام پاکستان کے بعد اپنا مسکن کوئٹہ اور کراچی میں رکھا۔
جمشید مارکر کو برصغیر کے ہر پیدا ہونے والے کی طرح کرکٹ کا جنون تھا اور ریڈیو پاکستان کے لیے کرکٹ کمنٹری کرنے والے اولین کمنٹیٹرز میں بھی شامل تھے، بلکہ 1954 میں جب بھارتی کرکٹ ٹیم نے پہلا دورہ پاکستان کیا توباغِ جناح لاہور (لارنس گارڈن) میں کھیلے گئے میچ کی کمنٹری عمر قریشی ( مشہور و معروف کرکٹ کمنٹیٹر) کے ساتھ مل کر جمشید مارکرنے کی۔
بہرحال بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی امریکہ ایران سعودیہ ٹرائی اینگل کی، جس کا رائٹ اینگل ڈھونڈنے کی جستجو پاکستان نے ٹھان لی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر معصوم بچے کی طرح ہمیں بھی بچپن میں ریاضی حساب کتاب سے بیر تھا۔ جیو میٹری تو گویا عذابِ عظیم تھا۔
مجال تھی اور محال تھا کہ کبھی کسی ٹرائی اینگل کا رائٹ اینگل ڈھونڈا ہو۔ گھنٹوں مغز ماری کی جاتی تب کہیں جا کر الٹی سیدھی شکلوں میں کوئی ہلکا سا ربط ڈھونڈ پاتے۔
لگتا ہے موجودہ صورتحال میں بھی پاکستان کا کردار اپنے بچپن جیسا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ امریکہ ایران سعودی تکون سیدھی سادھی لگتی ہے لیکن کس کی پہنچ کہاں تک ہے؟ کس کی لمبائی؟ کس کی ترچھائی؟ سب ناپنے بیٹھو تو دماغ گھوم جائے۔
بڑے بڑے ریاضی دان اس ٹرائی انگل کے زاویے تلاش نہ کر پائیں تو پھر پاکستان کے پاس ایسا کون سا فیتا غورث کا فیتہ ہے۔۔۔؟ ریاضی سے نکلیں اور بین الاقوامی تعلقات کو مضمون بنائیں تو دنیا کے نقشے پر اور اِس خطے کی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر سہ فریقی کشیدگی کم کروانے کی کوشش کرکے پاکستان بالکل صحیح کردار ادا کر رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس کاوش کو ضرور سراہا جانا چاہیے لیکن بطور صحافی میرا یہ فرض بھی ہے کہ تمام حقائق بھی عوام کے سامنے رکھوں۔
اسی واسطے پہلا سوال اس بریفنگ میں وزیر خارجہ صاحب سے یہی پوچھا کہ کوالامپورسمٹ کے معاملے پر تو سعودی عرب پہلے ہی پاکستان سے ناراض ہے اور تحفظات رکھتا ہے تو اِس پسِ منظر میں سعودیہ عرب کشیدگی کم کروانے کی پاکستان کی کوشش سے کتنا متاثر ہو سکتا ہے؟
شاہ صاحب نے سعودی عرب کے لیے ناراضی کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا تو میں نے لقمہ دیا کہ چلیے یوں سمجھ لیجیے دل میں بال آ گیا۔
اس پر شاہ صاحب نے اپنی ٹریڈ مارک زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ پھر یوں کہہ لیجیے کہ دل سے بال نکال دیں گے، ساتھ ہی کہا آپ دعا کیجیے گا۔ میں نے عرض کیا پیر تو آپ ہیں دعا ہم سے کیوں کرواتے ہیں۔
بریفنگ سے کچھ پہلے ہی شاہ محمود کی عراقی ہم منصب سے گفتگو ہوئی تھی۔ تب تک یوکرین طیارہ سانحے کے بارے میں ایران کا تسلیمی بیان بھی سامنے نہ آیا تھا۔
لیکن ایک بات تو واضح تھی کہ پاکستان اس کاوش کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ پاکستان کو احساس ہے کہ معاملہ انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہے اور مصالحتی یا کشیدگی کم کروانے کے کوئی فوری یا خاطر خواہ نتائج بھی برآمد نہ ہوں گے۔
لیکن بہرحال ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے ملکی وعالمی امن کے لیے پاکستان کوشش ہی کر سکتا ہے سو وہ تو کی جاوے۔
یہی کوشش پاکستان نے بھارت کے ساتھ بھی کی اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے تو بارہا کی لیکن بھارت کی جانب سے مثبت ردعمل نہ آنے کی وجہ سے خطہ غیر یقینی اور خطرے کی صورتحال سے دو چار ہوا مگر ایکسپوز بھی ہو گیا کہ یہاں امن و شانتی کون چاہتا ہے اور بارہا امن خراب کرنے کے درپےکون ہے۔
بھارت پر پہلی بار کے شدید عالمی دباؤ کے پسِ منظر میں بھی یہی کاوش کار فرما ہے۔ اب نئے بھارتی آرمی چیف کا بیان ہی لے لیجیے۔
علاقائی خطہ پہلے ہی جنگ کے خطرے سے دو چار ہے اور جنرل منوج پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کر کے اسے بھارت کا حصہ بنانے جیسی جنگی جنون کی غیر ذمہ دارانہ باتیں کر رہے ہیں۔
یہ پہلو بھی وزیر خارجہ سے ملاقات میں زیرِ گفتگو آیا۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کشمیر کو لے کر ایک طویل سوال جو وزیرِ خارجہ سے جوڑا، اس کا لُبِّ لباب یہ تھا کہ کیا پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ حل کرلیا جو پرائی جنگ کا ایندھن بجھانے چلے ہیں؟
اب چونکہ بہت سی باتیں آف دی ریکارڈ بھی تھیں لہٰذا تمام تو من و عن تحریر نہیں کی جا سکتیں لیکن اس ملاقات میں وزیر خارجہ سے کھل کر سوال ہوئے اور انہوں نے تسلی سے اطمینان بخش جواب دیے۔
ہماری ساتھی سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کئی سوالات کے ساتھ یہ بھی پوچھا کہ امریکی وزیر خارجہ ایران کشیدگی پر آرمی چیف سے گفتگو کرتے ہیں لیکن اپنے ہم منصب سے کیوں نہیں۔
حنیف خالد سینیئر صحافی ہیں انھوں نے بھی تبصرہ کیا کہ قوم کی رائے ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کو وزیر اعظم اور اپنے پاکستانی ہم منصب سے بھی بات کرنی چاہیے تھی۔
لگے ہاتھوں میں نے بھی لقمہ دیا کہ شاہ صاحب آپ نے تو دفترِ خارجہ میں ڈیسک پر زوردار ہاتھ مار کر پریقین آواز میں کہا تھا کہ Foreign policy of Pakistan will be made here (پاکستان کی خارجہ پالیسی یہاں دفتر خارجہ میں بنے گی)
شاہ صاحب شروع کے چند لمحے اس سوال پر چیں بجیں ہوئے لیکن فوراً ہی سنبھلتے ہوئے سول ملٹری ایک صفحے کے تعلقات کا سہارا لیتے ہوئے جواب کو موڑ گئے۔
پراکسی وار، پراکسی تنظیموں، جہادی گروپوں، ایف اے ٹی ایف سمیت تمام معاملات پر تفصیلی گفتگو رہی اور خلاصہ یہ کہ پاکستان کی سوچ اب کم از کم خارجہ پالیسی کے چند اہم معاملات پر بڑی واضح ہے لیکن اس سوچ پر عمل در آمد کامیاب کیسے بنایا جا سکتا ہے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔
چار بنیادی نکات ہیں جن کی بنا پر پاکستان اس خطے میں کسی نئی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اول تو افغان امن عمل۔ خطے میں کوئی بھی نئی کشیدگی افغان امن عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اس کا ادراک امریکہ کو بھی ہے۔
یہ باور کروایا گیا ہے آرمی چیف اور امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے گفتگو میں بھی اور 15 یا 16 جنوری کو شاہ محمود قریشی واشنگٹن یاترا میں بھی اس نکتے کو گفتگو کا اہم حصہ بنائیں گے۔
دوسرا نکتہ بھارت کے جارحانہ اور پاکستان و امن دشمن عزائم جن کا واضح ثبوت بھارتی آرمی چیف کے حالیہ بیان نے دے دیا۔
تیسرا نکتہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات، نیشنل ایکشن پلان کو یقینی بنانا اور یہ کہ پاکستان اپنی سر زمین پر جہادی گروپوں کو مزید نہ افورڈ کرئے گا نہ اجازت دے گا۔
چوتھا اور سب سے اہم نکتہ پاکستان کی معاشی صورتحال کا ہے۔ یہ تمام وہ نکات یا مفادات ہیں جن کی بِنا پر پاکستان امریکہ ایران سعودی عرب کشیدگی کم کروانا چاہتا ہے اور اس ٹرائی اینگل کا رائٹ اینگل ڈھونڈنے کی جستجو میں جُتا ہے۔
کامیابی کس قدر ملتی ہے حقیقت پسندانہ تجزیے سے تو جلد ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن بہر حال کوشش ضروری ہے اور چونکہ سعودی عرب اور ایران دونوں برادر ملک ہیں، امریکہ کے ہم پارٹنر اِن پیس ہیں اور ملک کے موجودہ معروضی حالات میں کسی کی طرف داری کرنا قطعا ًپاکستان کے قومی مفاد میں نہیں۔
ویسے بھی مسلّمہ اصول ہے کہ خارجہ پالیسی وہی اچھی جہاں نہ آپ کسی کی سائیڈ لیں نہ کوئی آپ کو سائیڈ مارے۔
چین اپنا یار ہے اور وہاں کی خارجہ پالیسی مثالی ہے۔ نہ کسی کو چھیڑتا ہے نہ کسی کو خود کو چھیڑنے دیتا ہے۔ نہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا ہے اور اپنی خارجہ پالیسی سیدھی اور آزاد رکھتا ہے، لیکن خارجہ پالیسی آزاد بنانے سے پہلے چین نے اپنی معیشت سیدھی کی اور آزاد بنائی اور معیشت آزاد ہوتی ہے قانون کی عمل داری سے۔
ہر چھوٹا بڑا ٹیکس دے، کالے دھن کو بند کیا جائے، آمدن کا پورا حساب ہو، جس پرکرپشن ثابت ہو وہ سزا بھگتے، کرنسی کے آنے جانے کے ریگولیٹڈ چینل ہوں، ہر چھوٹے بڑے، غریب امیر، طاقت ور کمزور کے لیے قوانین یکساں لاگو ہوں تبھی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور خارجہ پالیسی آزاد۔
لیکن یہاں تو ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے بعد ایک نئی ایمنسٹی، ایک نئے این آر او کے چرچے ہیں۔
نیب کو قانونی تالا لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک تسلیم کرتا ہے کہ ہنڈی حوالے کا کاروبار مزید پھیل رہا ہے۔ ٹیکس آمدن وہیں کی وہیں ہے۔ کام کرنے کی بجائے جھگڑے ہو رہے ہیں اور افسران چھٹیوں پر جا رہے ہیں۔
فی الحال آج کے لیے کالم طویل ہو گیا ہے۔ اس موضوع پر اگلے ہفتے آپ سے تفصیلی گفتگو رہے گی۔