ایران میں برطانیہ کے سفیرروب میکائر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس بات کی تردید کی ہے انہوں نے تہران یونیورسٹی کے باہر ہونے والے طلبا کے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
برطانوی سفیر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ میں مظاہرے میں شریک نہیں تھا۔ میں ایک ایسی تقریب میں شرکت کے لیے گیا تھا جسے یوکرینی طیارے کی تباہی میں ہلاک ہونے افراد کی یاد میں منعقد کیا جانا تھا اور یہی پیغام اس کے بارے میں مشتہر کیا گیا تھا۔‘
2/2
— Rob Macaire (@HMATehran) January 12, 2020
من نیم ساعت بعد از ترک محل دستگیر شدم. دستگیر کردن دیپلمات ها در هر کشوری غیر قانونی است. اظهارات وزیر امور خارجه بریتانیا @DominicRaab را ملاحظه کنید.
ممنون از پیام های شما که پر از حسن نیت بود
انہوں نے کہا کہ ’طیارے کی تباہی میں ہلاک ہونے والوں میں برطانوی شہری بھی تھے جنہیں خراج عقیدت پیش کرنا معمول کی بات ہے۔ تقریب میں بعض افراد کی طرف سے نعرے بازی شروع ہونے کے پانچ منٹ بعد میں وہاں سے چلا گیا۔‘
روب میکائر نے اپنے پیغام میں مزید کہا ہے کہ انہیں آدھے گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔
برطانوی سفیر کا کہنا تھا کہ تمام ملکوں میں سفارت کاروں کو گرفتار کرنا بلاشبہ غیرقانونی عمل ہے۔
برطانوی سفیر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ برطانوی سفارت خانے واپس جا رہے تھے، یہ واضح نہیں کہ انھیں کس فورس نے حراست میں رکھا۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے ایران کی جانب سے سفیر روب میکائر کی گرفتاری کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ایرانی حکام نے الزام لگایا تھا کہ برطانوی سفیر ان چند افراد میں شامل تھے، جنھیں مظاہرے کو منظم کرنے، اشتعال دلانے اور انتہا پسندانہ اقدامات کے لیے اکسانے جیسے جرائم کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔
ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے ساتھ روابط رکھنے والی نیوز ایجنسی تسنیم نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’انھیں (برطانوی سفیر کو) امیر کبیر یونیورسٹی کے سامنے مشکوک تحریک اور احتجاج کو منظم کرنے کے الزام میں حراست میں لینے کے چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا۔‘
ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ انھیں کل صبح وزارت خارجہ طلب کیا جائے گا۔