خیبر پختونخوا کے ایک بڑے دینی مدرسے جامعہ دارالعلوم حقانیہ نے گذشتہ دنوں خودکش حملے میں مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد کی موت سے متعلق پولیس کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سے کوئی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رہے ہیں۔
سانحے کے بعد نئے منتخب ہونے والے جامعہ کے نئے نائب مہتمم مولانا راشد الحق نے اکوڑہ خٹک میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پولیس کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’والد کے قتل کی تفتیش سے بھی کچھ پیش رفت نہیں ہوئی اور اس مرتبہ بھی کوئی زیادہ فرق دکھائی نہیں دے رہا ہے۔‘
مولانا راشد الحق نے ایک سوال کے جواب میں مرحوم بھائی کو حملے سے قبل کسی دھمکی ملنے سے بھی انکار کیا ہے۔
جامعہ دارالعلوم حقانیہ، حقانی خاندان، نائب مہتمم مولانا راشد الحق سمیع اور سیاسی جانشین مولانا عبدالحق ثانی نے خودکش حملے سے متعلق ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ چار دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں جس سے قاتلوں کا کچھ سراغ مل سکے۔
جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک کے شعبہ تحقیق، اشاعت و عوامی امور کی جانب سے جاری تفیصلی پالیسی بیان میں کہا ہے کہ ’دارالعلوم نے ہر ممکنہ تعاون جو اداروں کو درکار تھا وہ فراہم کیا لیکن ابھی تک کوئی بھی پیش رفت نہ ہو سکی۔
’ہمیں اندیشہ ہے کہ مولانا حامد الحق اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا معاملہ بھی روایتی انداز میں نہ لٹکایا جائے جس طرح مولانا سمیع الحق کی شہادت کو چھ برس ہونے کو ہیں مگر قاتلوں کا ابھی تک کوئی اتا پتا معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی کوئی تحقیقات کا اطمینان بخش نتیجہ نکلا۔‘
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں دھماکے کی بعد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے شدید مذمت کرتے ہوئے حکام سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد رپورٹ کے بارے میں صوبائی حکومت نے میڈیا کو کچھ نہیں بتایا۔
صوبائی حکومت نے اس حملے میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔
اکوڑہ خٹک سے جاری سخت بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کے حملے کے حوالے سے باقاعدہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے اور ’تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہمیں مطمئن کیا جائے نیز اس کیس کی منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے فوری ڈیڈ لائن دی جائے۔ اگر اس بار بھی حکومت نے اصل قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس کے بھیانک نتائج ہو سکتے ہیں۔‘
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا حامد الحق حقانی دارالعلوم حقانیہ جیسے عظیم تعلیمی ادارے کے نائب مہتمم اور سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر تھے۔ ’ان کی سیاسی اور ملی خدمات ملک و ملت کے لیے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔‘
بیان میں اشارہ دیا گیا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے حوالے سے بگڑتے ہوئے تعلقات اور حالات پر فکرمند تھے اور ’خطے میں دیرپا امن کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی پر ان دنوں کام کر رہے تھے۔‘ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کوششوں کی نوعیت کیا تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اطلاعات کے مطابق وہ خیبرپختونخوا حکومت کے اعلان کردہ اس وفد میں شامل تھے جس نے افغانستان جا کر افغان طالبان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق بات کرنی تھی۔ تاہم ابھی اس وفد کے جانے کے بارے میں کوئی واضح اشارے نہیں ملے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ مرحوم مولانا حامد الحق اس بارے میں متفکر اور رنجیدہ تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے حکومتوں کے درمیان مذاکرات اور پل کا کردار ادا کرنے کی پیشکش پر لبیک کہا تھا۔
مولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق کے ساتھ سیاست میں عمر بھر سرگرم رہے۔ آپ 2002 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے اسمبلی میں شریعت بل سمیت اسلامائزیشن اور عوامی مسائل کو پیش کیا تھا۔ وہ گذشتہ تین سال سے ملک کے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن بھی رہے۔
بیان میں یاد دلایا گیا کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے علالت اور نقاہت کے باوجود کرم ایجنسی میں فسادات کو روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا اور صوبائی و وفاقی حکومتوں سمیت وہاں کے مقامی رہنماؤں اور فریقین کو یقین دلایا تھا کہ علاقہ میں امن و امان کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
مولانا حامد الحق کو گذشتہ جمعہ 28 فروری کو حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگی اور دعا کے اختتام پر جیسے ہی آپ دروازے سے نکلنے لگے تو کسی شخص نے ان کو روکا اور اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا۔
ترجمان نے بیان میں واضح کیا کہ مولانا حامد الحق حقانی کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا۔ ’مدرسہ حقانیہ سے لے کر جمعیت علمائے اسلام تک، دفاع پاکستان کونسل سے لے کر دیگر اسلامی تحریکوں تک، خاندان سے لے کر اہل علاقہ تک سب سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ دارالعلوم حقانیہ اس وقت عالم اسلام کا ایک عظیم علمی، دینی، روحانی و سیاسی مرکز ہے۔ ’اس پر یہ گھناؤنا و بزدلانہ حملہ اسلام اور اس کے پرامن عقائد وتعلیمات پر حملے کے مترادف ہے۔ پھر یہ وقتاً فوقتاً دارالعلوم اور اس کے اساتذہ و اکابر پر حملے کیوں کر ہو رہے ہیں؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔‘
ترجمان نے دنیا بھر میں دارالعلوم حقانیہ کے فضلا، متعلقین، ملک بھر کے مذہبی قائدین، ائمہ مساجد سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ دینی اجتماعات میں اس سانحہ کی مذمت کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو احتجاجی مظاہرے بھی کریں اور مرنے والوں کے لیے دعائیں اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سانحہ سمیت دیگر امور پر عنقریب ایک بڑا اجلاس بلایا جائے گا جس میں اس مقدمے پر پیش رفت کا جائزہ اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اساتذہ مشائخ حقانیہ اور خاندان حقانی خصوصاً حضرت مولانا انوار الحق مہتمم دارالعلوم حقانیہ، مولانا راشد الحق نے ملک و بیرون ملک سے جنازے اور تعزیت میں آنے والے تمام مسلمانوں، علمائے کرام، سیاسی رہنماؤں، صحافی، دانشور، متعلقین، طلبائے کرام، سفارت کار سمیت مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے غم کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ دل جوئی کی۔ انہوں نے بیرون ملک رہنے والے متعلقین، حکومتوں اور عالمی تنظیموں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے تعزیت کے پیغامات بھیجے۔