پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔
گذشتہ برس چار مارچ کو شہباز شریف نے بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھایا تھا اور اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایک سال میں معاشی استحکام آیا لیکن سفر ابھی طویل اور مشکل ہے۔‘
اس اتحادی حکومت کو ایک سال میں کیا چیلنجز رہے اور کن کامیابیوں کے دعوے کیے گئے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
شہباز حکومت نے اس ایک سال کے دوران دعویٰ کیا کہ پہلا سال بے مثال رہا اور انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے سے نکالا اور معیشت کو ٹریک پر لائے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے ’نیو اکانومی اینڈ سوسائٹیز پلیٹ فارم‘ کا کنٹری پارٹنر انسٹی ٹیوٹ مشعل پاکستان نے پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025 کا اجرا کیا ہے، جس میں جنوری 2024 سے جنوری 2025 تک کا جامع تجزیہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’گذشتہ 11 مہینوں میں، 120 سے زائد اصلاحات مختلف شعبوں میں نافذ کی گئیں، جن میں گورننس، اقتصادی پالیسی، قانونی فریم ورک اور ادارہ جاتی کارکردگی شامل ہیں۔
رپورٹ کے اہم نکات:
- 150000 وفاقی ملازمتوں میں کمی کر کے اخراجات کم کیے گئے۔
- حکومتی بورڈز میں 33 فیصد خواتین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ افراطِ زر مئی 2023 میں 38 فیصد سے کم ہو کر دسمبر 2024 میں 4.1 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
- زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 11.73 بلین ڈالر ہو گئے۔
- جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد ہو گئی اور 2025 میں 3.5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
- تجارتی خسارہ 27.47 بلین ڈالر سے کم ہو کر 17.54 بلین ڈالر رہ گیا۔
- پنشن ریفارمز سے آئندہ 10 سالوں میں 1.7 ٹریلین روپے کی بچت متوقع ہے۔
حکومت کا یہ بھی ماننا ہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں سعودی تجارتی وفد پاکستان آیا جس میں سعودی عرب کے ساتھ 2.8 بلین ڈالر کے 34 معاہدے طے پائے۔
اکتوبر میں ہی چینی وزیر اعظم پاکستان آئے تھے۔ اس دوران گوادر ایئر پورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا گیا اور سی پیک کے دوسرے فیز پہ کام کا آغاز ہوا۔
فروری 2025 میں ترکی کے صدر کا پانچ برس بعد دورہ پاکستان جبکہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد بھی مختصر دورے پر پاکستان آئے اور اہم یاداشتوں پر دستخط ہوئے۔
حکومت کا ماننا ہے کہ دوست ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ عہدے داران کی پاکستان آمد کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بحالی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث حکومت نے 120 ممالک کو ویزا پرائر ٹو ارائیول وی پی اے کی سہولت دی۔
- نیشنل فارنزک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی کا قیام کیا گیا۔
- 178 وفاقی عدالتوں میں ڈیجیٹل کیس فلو مینجمنٹ سسٹم نافذ۔
- نیشنل رجسٹریشن اور بائیو میٹرک پالیسی کا نفاذ۔
- پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی کا قیام کیا گیا اس کے علاوہ گرین پاکستان پروگرام کے تحت 67.5 ملین درخت لگائے گئے۔
- 100 ای سی ای (ابتدائی بچپن کی تعلیم) مراکز قائم کیے گئے۔
- خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی منظور کی گئی۔
ایک سال میں ایوان سے منظور ہونے والے اہم حکومتی بل:
حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال بھی مکمل ہو گیا ہے۔
قومی اسمبلی نے پارلیمانی سال مکمل ہونے پر رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 51 بلز منظور کیے گئے، جن میں 26 ویں آئینی ترمیم بھی شامل ہے۔ ان میں سے 40 حکومتی بلز اور 11 پرائیویٹ ممبران کے بلز کامیابی سے منظور کیے گئے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں 36 حکومتی بلز اور چھ پرائیویٹ ممبران کے بلز قانون بنے۔
رپورٹ کے مطابق ’سب سے نمایاں سنگ میل 26ویں آئینی ترمیم بل کی منظوری تھی، جس کا مقصد عدالتی اصلاحات اور پارلیمانی بالادستی کو مضبوط بنانا تھا۔ دیگر اہم قانون سازی میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025 شامل ہے، جس کا مقصد پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو بہتر بنانا اور الیکٹرونک کرائم کو روکنا ہے۔‘
پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کے بل بھی منظور کیے گئے جس کے تحت آرمی چیف سمیت سروسز چیف کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی۔
گذشتہ برس نومبر میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کیا گیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔
ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد نو سے بڑھا کر 12 کر دی گئی جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 21 سے 34 منظور کی گئی۔
جبکہ گذشتہ برس دسمبر میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل بھی منظور کیا گیا جسے قانون بنا دیا گیا۔ اس کے تحت تمام مدارس کو چھ ماہ کے اندر رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی۔
اس کے علاوہ رواں برس جنوری میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024 منظور کیا جس سے حکومت کے آن لائن مواد اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرنے کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جبکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس ایکٹ کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا گیا۔
اہم کانفرنسز کا انعقاد:
حکومت کے لیے اہم سنگ میل میں شنگھائی تعاون تنظیم کے حکومتی سربراہان مملکت کانفرنس کا انعقاد تھا جس کی میزبانی پاکستان نے کی جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ جبکہ دیگر تمام رکن ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔
رواں برس جنوری میں مسلم ورلڈ لیگ کے فورم کے تحت مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیم کے موضوع پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملالہ یوسف زئی نے خصوصی شرکت کی۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے حکومت کی ایک سال کی کارکردگی پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی اعتبار سے شہباز شریف حکومت کے عمران خان سے مذاکرات شروع ہوئے لیکن وہ مذاکرات ناکام رہے۔‘
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’پارلیمنٹ کے محاذ پر کوئی خاص کامیابی اس طرح نہیں ملی کہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے بات چیت نہیں کر سکے اور دوسری طرف پہلے پارلیمانی سال مکمل ہونے پر جو کارکردگی ہونی چاہیے تھی وہ بھی نظر نہیں آئی۔
’البتہ حکومت جو جو قانون سازی کرنا چاہتی تھی وہ ایجنڈا انہوں نے مکمل کر لیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’لا اینڈ آرڈر کی بات کی جائے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالات خراب رہے ہیں۔ اوورآل دیکھا جائے تو ابھی بہت سی چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد ایوان کا جو کردار ہوتا ہے اس میں لگتا ہے کہ زیادہ کامیابیاں نہیں ہیں۔‘
معاشی امور پر کام کرنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک سال میں حکومت کی ایک کامیابی تو ہے کہ جو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں وہ اب نہیں ہو رہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان جب آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتا ہے ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا لیکن اس چیز سے مسلسل بچنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کا معاشی چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے ڈھانچے میں جو تبدیلی لانی وہ ابھی تک نہیں لائی جا سکی۔‘
شہباز رانا کہتے ہیں کہ خسارے کا شکار قومی اداروں کی ابھی تک نجکاری نہیں ہو سکی۔ ’ٹیکس کا نظام اتنا ہی خراب ہے جو پہلے تھا۔ وہ طبقے جن پر ٹیکس کا بوجھ پہلے تھا انہی پر ہی مزید دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاجروں کو ٹیکس نیٹ سے ابھی بھی باہر رکھا ہوا ہے۔ پاور سیکٹر کے نقصانات بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں میں حکومت کوئی دیرپا کمی لانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔‘
انہوں مزید کہا کہ ’مہنگائی بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے لیکن مہنگائی پھر بھی موجود ہے۔ ان چیلنجزسے نمٹنے کے لیے حکومت کو دیر پا اقدامات کرنے ہوں گے۔‘