روس کے صدر ولادی میر پوتن نے ایک چھوٹے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا حالاں کہ یوکرین روس کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اس حملے کے تین سال مکمل ہونا یوکرین کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کا ایک موقع ہے۔ اب تک روس جنگ میں کامیاب نہیں ہوا، کم از کم میدان جنگ میں تو نہیں۔
حالیہ ناکامیوں اور اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کی تباہ کن بےوفائی کے باوجود یوکرینی شکست سے دوچار نہیں ہوئے۔
صدر پوتن کو کیئف میں وہ فتح کا جلوس نصیب نہیں ہوا جس کا وہ خواب دیکھ رہے تھے۔ ولودی میر زیلینسکی جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور نہیں ہوئے۔
یوکرین کی یہ کامیابی یورپ کے دیگر عوام کے لیے ایک مثال ہے کہ روسی تسلط کوئی ناگزیر حقیقت نہیں۔
گویا ہمیں مستقبل پر نظر ڈالنے کے لیے جھنجھوڑنے کے لیے عین وقت پر یورپ میں اس کے ایک نئے رہنما سامنے آئے ہیں جو قیادت فراہم کر سکتے ہیں بلکہ ایک نظریہ بھی۔
جلد ہی جرمنی کے نئے چانسلر بننے والے فریڈرک میرز شاید کوئی جرمن نجات دہندہ نہ ہوں، لیکن یورپ کی سب سے طاقت ور معیشت اور بے مثال صنعتی قوت کے رہنما کی حیثیت سے وہ اس قیادت کی پیشکش کر سکتے ہیں جس کی کمی براعظم کو تب سے محسوس ہو رہی ہے، جب سے ایک اور کرسچن ڈیموکریٹ انگیلا مرکل رخصت ہوئیں۔
ان کا پس منظر اور انداز مرکل سے مختلف ہے۔ میرز کسی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس جیسے رہنماؤں کا متضاد ہیں۔
وہ ایک ایسے یورپی ہیں جو حقیقت پسند اور بات کھل کر کرتے ہیں۔ دوٹوک اور بے لاگ۔
وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انہیں ٹرمپ کے بارے میں ’قطعی کوئی غلط فہمی‘ نہیں، جو ’اب یورپ کے مستقبل کی فکر تقریباً ختم کر چکے ہیں۔‘
میرز میں دماغ کی وہ تیزی نظر آتی ہے جو بہترین سیاست دانوں کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں دو، تین، بلکہ چار قدم آگے کی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں ’یہ واضح نہیں کہ جون میں ہونے والے نیٹو سربراہ اجلاس تک ’ہم نیٹو کو اس کی موجودہ شکل میں دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں۔‘
جہاں کچھ لوگ، جیسے کہ کیئر سٹارمر اور نیٹو کے سiکریٹری جنرل مارک روٹے، اس امید سے چمٹے ہوئے ہیں کہ یورپ میں امریکی سکیورٹی کی ضمانت کسی نہ کسی طرح برقرار رہ سکتی ہے اور دوسرے، خاص طور پر بورس جانسن خود کو پیچیدہ تاویلات میں الجھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، وہیں میرز پہلے شخص ہیں جو اپنے یورپی ساتھیوں کو اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں کہ امریکہ نے اپنی سمت بدل لی ہے۔
اب وہ روس کا شراکت دار ہے بلکہ اتحادی بننے کے قریب ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جس کا خدشہ تھا، مگر حقیقت اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔
اس کے لیے جرمن زبان کا ایک لفظ ’ زیتن وینڈے‘ بھی ہے, جس کا مطلب ہے کہ ایسا موڑ جہاں ایک عہد ختم ہو کر دوسرا شروع ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یورپ کو ایک نئی یورپی دفاعی برادری کی ضرورت ہے یا اس سے بھی بہتر، ایک آئینی طور پر محفوظ یورپی ٹریٹی آرگنائزیشن (ای ٹی او) جو نیٹو سے وجود میں آئے، اسے مضبوط کرے، اگر مکمل طور پر اس کی جگہ نہ بھی لے۔
یہ وہ راستہ نہیں جسے یورپی طاقتیں اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ ہم امریکہ کے ساتھ مل کر زیادہ مضبوط ہیں۔
لیکن اگر واقعی ایک نیا امریکہ روس اتحاد بن رہا ہے (چاہے اس کا جغرافیائی سیاست میں کوئی جواز ہو یا نہ ہو) تو ہمارے پاس شاید کوئی اور راستہ نہ بچے۔
اس نئی حکمت عملی کا محور ’اجتماعی سکیورٹی‘ کا تصور ہو گا، یعنی ایک معاہدہ جس میں یہ عہد شامل ہو کہ کسی ایک ملک پر حملہ، سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
بالکل ویسے ہی جیسے شمالی اوقیانوسی معاہدے (نیٹو) کی شق پانچ میں درج ہے۔ نئی یورپی ٹریٹی آرگنائزیشن میں یورپ سے باہر کے وہ ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں جو یورپ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اس کے ہم خیال ہیں۔
مثلاً کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان، شاید ترکی بھی۔ لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ بلاشبہ یورپی ممالک پر مشتمل ہوگا، چاہے وہ یورپی یونین کا حصہ ہوں یا نہ ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے لیے وسیع وسائل درکار ہوں گے، جنہیں دفاعی صنعتوں، سیٹلائٹ نیٹ ورکس، جدید ٹیکنالوجی، اور مکمل خودمختار جوہری دفاعی صلاحیت کے قیام پر لگانا ہوگا (جو اس وقت صرف فرانس کے پاس ہے، جب کہ برطانیہ امریکی ترسیلی نظام پر انحصار کرتا ہے)
خفیہ ادارے اور نگرانی کے نیٹ ورکس کو مضبوط بنانا ہو گا۔ مشترکہ کمان کے نظام، جو نیٹو کے موجودہ ڈھانچے سے تیار کیے جائیں، بھی اس نئی دفاعی حکمت عملی کا ایک لازمی جزو ہوں گے۔
یہ تمام مشکلات بذات خود کافی بڑی ہیں، لیکن جن سیاسی مشکلات کے ساتھ یہ جڑی ہوئی ہیں وہ بھی اتنے ہی پیچیدہ ہیں۔
مثال کے طور پر نیٹو کی 75 سالہ تاریخ میں دیکھا گیا کہ ای ٹی او تب ہی پائیدار ہو سکتی ہے جب ہر ملک میں اس پر وسیع سیاسی اتفاق رائے موجود ہو۔
پھر بھی ہم یہ جانتے ہیں کہ مثال کے طور پر اس وقت ہنگری اور سلوواکیہ پابندی کرنے سے انکار کریں گے، اور جرمنی میں دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے لیے روس کو خوش کرنا اور سستی گیس کی فراہمی دوبارہ شروع کرانا کو ترجیح ہوگی۔
’یورپی فوج‘ کا محض ذکر ہی برطانوی دائیں بازو میں شدید بے چینی پیدا کر دیتا ہے۔ اگر سہین، اٹلی اور لکسمبرگ جیسے ملک نیٹو کے لیے درکار مالی وسائل فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، تو پھر وہ ای ٹی او کے لیے کیوں سرمایہ لگائیں گے؟
کیا فرانسیسی اس بات پر راضی ہوں گے کہ ان کی فوجیں کسی برطانوی، پولش یا ڈچ جنرل کی کمان میں دے دی جائیں؟ اور یورپ میں کون سا آرام دہ طرز زندگی گزارنے والا ووٹر اپنی فلاحی ریاست کے وسائل کو فوجی اخراجات میں تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دے گا؟ کیا برطانیہ اور فرانس اپنے جوہری ہتھیار استعمال کر کے ایستونیا، مالدووا یا خود جرمنی کا دفاع کریں گے؟
یورپی جمہوریت کا اپنی حفاظت کرنے کی صلاحیت پر مایوس ہونا نہ صرف آسان بلکہ شاید دانشمندانہ بھی ہے، اور 20 وویں صدی کی تاریخ اس حوالے سے کوئی حوصلہ افزا تصویر پیش نہیں کرتی۔
یہ سوچنا بھی آسان ہے کہ متبادل نظام جلد یا آسانی کے ساتھ امریکی طاقت اور مہارت کی جگہ لے سکتا لیکن اگر واقعی امریکہ ہمارے لیے جنگیں لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا، جیسا کہ آج کل واشنگٹن میں کہا جا رہا ہے، تو پھر ہمیں اپنی جنگیں خود لڑنی ہوں گی۔
اگر امریکی جوہری چھتری بند کر کے واپس لے جائی جاتی ہے تو اس صورت میں ای ٹی او کو اس کی جگہ لینی ہوگی اور اسے دنیا بھر میں مضبوط تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔
یہ تنظیم ان اقدار پر قائم ہوگی جن سے امریکہ اپنی موجودہ انتظامیہ کے تحت، اب اتفاق نہیں کرتا (جیسا کہ جے ڈی وینس ہمیں آ کر بتا چکے ہیں) اور ساتھ ہی نہ یورپ سمیت دنیا بھر میں شراکت داروں کے مفاد کے تحفظ کے اصول پر۔
کوئی دوسرا راستہ نہیں، جیسا کہ مَیرز ہم سب کو خبردار کر چکے ہیں۔
© The Independent